بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جماعت ثانیہ کے بارے میں چند تحقیقی سوالات


سوال

سوال نمبر 1۔ مسجد کے ساتھ متصل کمروں میں جماعت ثانیہ کرنا شرعاً کیسا ہے؟ ایک مولانا صاحب کہتے ہیں کہ ان کمروں میں جماعت ثانیہ کرنا صحیح نہیں ہے، فرماتے ہیں کہ فقیہ الامت مولانا محمود حسن گنگوہی نے اپنی مسجد میں جماعت فوت ہونے والوں کو مسجد کے صحن اور متصل کمروں میں بھی جماعت ثانیہ سے منع فرماتے تھے اور ممانعت کی علت تقلیل جماعت بتاتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر صحن اور متصل کمروں میں اجازت دی جائے تو مسجد کی جماعت متاثر ہوگی (مستفاد از فتاوی قاسمیہ ص:228، ج:6)

سوال نمبر 2۔ اگر جماعت ثانیہ میں تین افراد ہوں تو عند الاحناف اس میں کراہت تحریمی ہے یا نہیں؟ یہی مولانا صاحب کہتے ہیں کہ اگر جماعت ثانیہ میں تین سے زائد افراد شریک ہوں تو جماعت ثانیہ مکروہ ہوگی ورنہ نہیں۔ "لو كانت الجماعة الثانية اكثر من ثلاثه يكره التكرار وإلا فلا (رد المحتار، باب الاذان، ص:63، ج:2)

سوال نمبر 3۔ مسافر کے لیے مسجد محلہ میں جماعث ثانیہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ یہی مولانا صاحب کا کہنا ہے کہ مسافر کے لیے جماعت ثانیہ جائز ہے اس لیے کہ غیر مقیمین (مسافر) کی جماعت کی وجہ سے اصل جماعت متاثر نہیں ہوی اور جماعت ثانیہ ممانعت کی اصل علت اصل جماعت کا متاثر ہونا ہے جو کہ یہاں مفقود ہے اس وجہ سے غیر مقیمین مسافروں کے لیے جائز ہے اور دلیل میں بدائع الصنائع کا حوالہ پیش کرتے ہیں  "وتقليل الجماعة مكروه، ‌بخلاف ‌المساجد ‌التي ‌على ‌قوارع ‌الطرق؛ لأنها ليست لها أهل معروفون، فأداء الجماعة فيها مرة بعد أخرى لا يؤدي إلى تقليل الجماعات" ۔

جمهور فقهائے احناف كے راجح قول كيا هيں؟

جواب

1۔واضح رہے کہ جمہور فقہاء احناف کے نزدیک مسجد کے ساتھ متصل کمروں اور دالان وغیرہ (جو مسجد شرعی کی حدود سے خارج ہوں) میں جماعت ثانیہ کرنا جائز ہے، اس لیے کہ یہ متصل کمرے وغیرہ مسجد سے خارج ہیں مسجد میں داخل نہیں ہیں جب کہ جماعت ثانیہ کی کراہت کا قول مسجد میں جماعت ثانیہ کے بارے میں ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

‌"ويكره ‌تكرار ‌الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن"

(باب الامامة، ص:552، ج:1، ط:سعید)

مبسوط سرخسي ميں هے:

"قال (‌وإذا ‌دخل ‌القوم ‌مسجدا قد صلى فيه أهله كرهت لهم أن يصلوا جماعة بأذان وإقامة ولكنهم يصلون وحدانا بغير أذان ولا إقامة) لحديث الحسن قال كانت الصحابة إذا فاتتهم الجماعة فمنهم من اتبع الجماعات ومنهم من صلى في مسجده بغير أذان ولا إقامة وفي الحديث «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - خرج ليصلح بين الأنصار فاستخلف عبد الرحمن بن عوف فرجع بعد ما صلى فدخل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بيته وجمع أهله فصلى بهم بأذان وإقامة» فلو كان يجوز إعادة الجماعة في المسجد لما ترك الصلاة في المسجد والصلاة فيه أفضل، وهذا عندنا"۔

(باب الاذان، ص:135، ج:1، ط:دار المعرفة)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"اگر کبھی کسی قوی عذر کی وجہ سے جماعت فوت ہوجاوے تو گھر میں یا مسجد شرعی سے باہر (فنائے مسجد میں) جماعت کر کے نماز پڑھ سکتے ہیں مگر اس کی عادت نہ کر لی جائے"۔

(باب الامامۃ والجماعۃ، ص:154، ج:4، ط:دار الاشاعت)

فتاوی دار العلوم زکریا میں ہے:

"مسجد کی حدود میں جس مسجد کا امام اور مؤذن مقرر ہوں جماعتِ ثانیہ ہیئت اولیٰ پر مکروہ تحریمی ہے اور اگر ہیئت بدل دی جائے یعنی بغیر اذان کے اور محراب یا محاذاتِ محراب سے ہٹ کر ہو تو کراہت تنزیہی کے ساتھ جائز ہے، بہتر یہ ہے کہ مسجد کے ساتھ ملحقہ کمرہ یا مدرسہ وغیرہ ہو تو اس میں جماعت ثانیہ کر لی جائے، نیز جماعت اولیٰ میں شرکت کا اہتمام کرنا چاہیے، جماعت ثانیہ کی عادت بنالینا اچھا نہیں ہے۔" 

(کتاب الصلوٰۃ، ص:261، ج:4، ط:زمزم پبلشر)

2۔ مسجد میں جماعت ثانیہ کرانا چاہے تین افراد سے کم ہوں یا زیادہ مطلقاً مکروہ ہے، یہی ظاہر الراویۃ اور امام ابوحنیفہ کا راجح قول ہے اور سوال میں جس عبارت سے استدلال کیا گیا ہے وہ امام صاحب کا مرجوح قول ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"ومقتضى هذا الاستدلال كراهة التكرار في مسجد المحلة ولو بدون أذان؛ ويؤيده ما في الظهيرية: لو دخل جماعة المسجد بعد ما صلى فيه أهله يصلون وحدانا وهو ظاهر الرواية اهـ"۔

(باب الامامة، ص:553، ج:1، ط:سعید)

فتاوی مفتی محمود میں ہے:

"امام اعظم رحمہ اللہ کا قول ظاہر الروایۃ ہے اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے قول کی بھی تصحیح کی گئی ہے۔ ہمارے علماء دیوبند رحمہم اللہ نے تکرار جماعت فی مسجد المحلۃ کے مفاسد کو پیش نظر رکھ کر امام اعظم رحمہ اللہ کے قول پر فتوی دیا ہے"۔ 

(باب الحظر والاباحۃ، ص:263، ج:11، ط:جمعیت پبلشر)

3۔ مسافر کے لیے بھی محلہ کی مسجد میں جماعت ثانیہ کرانا مکروہ ہے اور مذکورہ عبارت سے استدلال صحیح نہیں ہے کیوں کہ یہ حوالہ راستہ کی مساجد کے بارے میں ہے جب کہ فقہاء نے محلہ کی مسجد میں ہر ایک کے لیے جماعت ثانیہ کو مکروہ کہا ہے جب مسجد کے نمازیوں نے وہاں جماعت کرادی ہو، لہذا مذکورہ استدلال درست نہیں ہے۔ 

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌فإن ‌كان ‌له ‌أهل ‌معلوم: ‌فإن ‌صلى ‌فيه ‌غير ‌أهله ‌بأذان ‌وإقامة ‌لا ‌يكره ‌لأهله ‌أن ‌يعيدوا ‌الأذان ‌والإقامة، ‌وإن ‌صلى ‌فيه ‌أهله ‌بأذان ‌وإقامة، ‌أو ‌بعض ‌أهله ‌يكره ‌لغير ‌أهله ‌وللباقين ‌من ‌أهله ‌أن ‌يعيدوا ‌الأذان ‌والإقامة"۔

(کتاب الصلاۃ، ص:153، ج:1، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100942

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں