بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جماعت میں لوگوں کی زیادہ شرکت کے لیے تاخیر کرنا


سوال

ہمارے گاؤں میں چھوٹی سی مسجد ہے، اس میں جب نماز کا ٹائم ہوجاتا ہے تو مسجد کا امام لوگوں کے  لیے انتظار کرتا ہے  کہ تھوڑا صبر کرو فلانہ آجائے فلانہ آجائے تو کیا کسی  کے لیے انتظار کرسکتے  ہیں یا نہیں؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ میں نے  کئی بار امام کو  بولا ہے کہ اذان لوگوں کو خبر کرنے  کے لیے ہے جب ایک بار اذان ہوجاتی ہے  اور نماز کا ٹائم بھی  مقرر  ہے،  لیکن پھر بھی گاؤں کے لوگ ہیں، کوئی دوکان میں بیٹھا ہوتا ہے،  کوئی مسجد کے باہر ہوتا ہے، تو پھر امام یا کوئی اور لوگوں کو آوازیں لگاتے ہیں کہ جلدی کرو، آجاؤ نماز  کے لیے،میرا مقصد یہ  ہے کہ کیا یہ ٹھیک ہے کہ  لوگوں کو کہیں  نماز کے لیے آجاؤ   ٹائم پورا ہوگیا ہے،میں نے کئی بار امام کو بولا ہے کہ اذان جب ہوجاتی ہے،پھر  لوگوں کو خود  چاہیے کہ وہ نماز  کے لیے آجائیں ۔یعنی مسجد کا کوئی خاص امام نہیں ہے۔آج بھی لوگ دکان میں تھے نماز کا ٹائم ہوگیا،  پھر بھی لوگ نہیں آرہے تھے،  پھر میں اور ایک دوسرا آدمی تھا ہم نے  جماعت کے  ساتھ نماز پڑھی ۔تقریبًا  5 منٹ بعد لوگ دکان سے آئے تو سب لوگوں نے  کہا کہ آپ لوگوں کو کیوں جلدی ہے؟ میں نے کہا کہ نماز کا ٹائم پورا تھا تو لوگوں نے کہا کہ تھوڑا صبر کرنا چاہیے تھا،تواس بارے میں ہماری  راہ نمائی فرمائیں کہ اس طرح ہم لوگوں کا انتظار کریں یا نماز پڑھ لیں  اپنے  ٹائم پر ؟

جواب

باجماعت نماز کے  لیے مقرر شدہ  وقت پر اگر امام صاحب اور کچھ نمازی موجود ہوں تو ایسی صورت میں مقررہ وقت پر جماعت کھڑی کردینی چاہیے، مقررہ وقت ہونے کے بعد کسی خاص شخص کی وجہ سے جماعت کو مؤخر نہیں کرنا  چاہیے، جو نمازی راستہ میں ہوں گے وہ ایک، دو رکعت گزرنے کے بعد پہنچ کر شامل ہوجائیں گے، البتہ اگر جماعت کا وقت ہوجانے کی صورت میں امام صاحب موجود نہ ہوں تو  دیکھا جائے کہ  اگر امام صاحب وہیں موجود ہوں یعنی وضو وغیرہ میں مصروف ہوں  یاحجرے میں ہوں تو  ان کا انتظار کرنا چاہیے۔ اگر امام صاحب موجود نہ ہوں اور ان کے نہ آنے کا یقین ہو تو بلاتاخیر جماعت کھڑی کرلی جائے، اور  اگر آنے کا یقین ہے تو انتظار کیا جائے، اور اگرکچھ معلوم نہ ہو تو دوچار منٹ انتظارکرکے جماعت کھڑی کرلی جائے،کیوں کہ گھڑی کے مطابق نمازوں کے اوقات کا تعین لوگوں کی سہولت کے لیے ہے، یہ شرعی معیار نہیں ہے، رسول اللہ ﷺ  کے زمانے میں نمازوں کے مستحب اوقات میں جب لوگ جمع ہوجاتے تھے تو رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے تشریف لایا کرتے تھے، اگر اتفاقاً کبھی اس لئے تھوڑی تاخیر کرلی جائے کہ زیادہ لوگ جماعت میں شریک ہوجائیں تو مضائقہ نہیں ہے، لیکن مستقل تاخیر کا معمول بنالینا، کسی طرح مناسب نہیں ہے، البتہ عالم  اور نیک آدمی کی خاطر کسی وقت کچھ دیر کرنا بلا کراہت  جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ففي أذان البزازية: لو انتظر الإقامة ليدرك الناس الجماعة يجوز و لواحد بعد الاجتماع لا، إلا إذا كان داعرًا شريرًا اهـ"۔

(کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ،ج:1،ص:495،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ويفصل بين الأذان والإقامة مقدار ركعتين أو أربع يقرأ في كل ركعة نحوا من عشر آيات، كذا في الزاهدي. و الوصل بين الأذان والإقامة مكروه بالاتفاق، كذا في معراج الدراية. و الأولى للمؤذن في الصلاة التي قبلها تطوع مسنون أو مستحب أن يتطوع بين الأذان والإقامة."

(کتاب الصلاۃ،الباب الثانی فی الاذان،الفصل الثاني في كلمات الأذان والإقامة وكيفيتهما،ج:1،ص:57،ط:رشیدیہ)

سنن الکبری للبیہقی میں ہے:

"أن النبي صلى الله عليه وسلم، كان يخرج بعد النداء إلى المسجد، فإذا رأى أهل المسجد قليلا جلس حتى يرى منهم جماعة، ثم يصلي، وكان إذا خرج فرأى جماعة أقام الصلاة"۔

(کتاب الصلاۃ،باب الإمام يخرج فإن رأى الجماعة أقام الصلاة، وإلا جلس حتى يرى منهم جماعة إذا كان في الوقت سعة،ج:2،ص:31،رقم:2283،ط:دار الکتب العلمیہ)

جامع الترمذی میںہے:

" كان مؤذن رسول الله صلى الله عليه وسلم يمهل فلا يقيم، حتى إذا رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم قد خرج أقام الصلاة حين يراه."

(کتاب الصلاۃ،باب ما جاء أن الإمام أحق بالإقامة،ج:1،ص:148،ط:رحمانیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"فالحاصل أن التأخير القليل لإعانة أهل الخير غير مكروه."

(کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ،ج:1،ص:495،ط:سعید)

فتاوی رحیمیہ میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا:

"عالم اور نیک آدمی کی خاطر کسی وقت کچھ دیر کرنا بلا کراہت جائز ہے"۔

(کتاب الصلاۃ،باب الامامۃ والجماعۃ،ج:4،ص:134،ط:دار الاشاعت)

الدر المختارمع رد المحتار میں ہے:

"(ويثوب) بين الأذان والإقامة في الكل للكل بما تعارفوه (ويجلس بينهما) بقدر ما يحضر الملازمون مراعياً لوقت الندب (إلا في المغرب).

(قوله: ويثوب) التثويب: العود إلى الإعلام بعد الإعلام، درر، وقيد بتثويب المؤذن لما في القنية عن الملتقط: لاينبغي لأحد أن يقول لمن فوقه في العلم والجاه: حان وقت الصلاة، سوى المؤذن؛ لأنه استفضال لنفسه. اهـ. بحر. قلت، وهذا خاص بالتثويب للأمير ونحوه على قول أبي يوسف، فافهم.

(قوله: بين الأذان والإقامة) فسره في رواية الحسن بأن يمكث بعد الأذان قدر عشرين آية ثم يثوب ثم يمكث كذلك ثم يقيم، بحر.
(قوله: في الكل) أي كل الصلوات لظهور التواني في الأمور الدينية. قال في العناية: أحدث المتأخرون التثويب بين الأذان والإقامة على حسب ما تعارفوه في جميع الصلوات سوى المغرب مع إبقاء الأول يعني الأصل وهو تثويب الفجر وما رآه المسلمون حسناً فهو عند الله حسن. اهـ.
(قوله: للكل) أي كل أحد، وخصه أبو يوسف بمن يشتغل بمصالح العامة كالقاضي والمفتي والمدرس، واختاره قاضي خان وغيره، نهر.
(قوله: بما تعارفوه) كتنحنح، أو قامت قامت، أو الصلاة الصلاة، ولو أحدثوا إعلاماً مخالفاً لذلك جاز، نهر عن المجتبى.
(قوله: ويجلس بينهما) لو قدمه على التثويب لكان أولى؛ لئلا يوهم أن الجلوس بعده، نهر.
(قوله: إلا في المغرب) قال في الدرر: هذا استثناء من يثوب ويجلس؛ لأن التثويب لإعلام الجماعة وهم في المغرب حاضرون لضيق الوقت. اهـ. واعترضه في النهر بأنه مناف لقول الكل في الكل. قال الشيخ إسماعيل: وليس كذلك، لما مر عن العناية من استثناء المغرب في التثويب، وبه جزم في غرر الأذكار والنهاية والبرجندي وابن ملك وغيرهما. اهـ.قلت: قديقال: ما في الدرر مبني على رواية الحسن من أنه يمكث قدر عشرين آية، ثم يثوب كما قدمناه".

(کتاب الصلاۃ،باب الاذان،ج:1،ص:389،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101805

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں