بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جماعت کی نماز میں وضو ٹوٹ جائے تو وضو کرنے کے لیے کس طرح صفوں سے نکلے؟


سوال

جماعت کی نماز کے دوران اگر وضو ٹوٹ جاۓ اور دوبارہ وضو کرنے کے لیے پیچھے صفوں میں سے نکل کر جانے کی جگہ نہ ہو تو کیا کریں؟

جواب

جماعت کی نماز میں اگر وضو ٹوٹ جائے تو نماز ٹوٹ جائے گی، اس حالت میں نماز پڑھنے سے نماز ادا نہیں ہوگی۔ صفوں میں جس جانب سے راستہ ہو مسجد سے باہر نکل جائے، ورنہ صفوں کو چیرتے ہوئے نکل  جائے اور دوبارہ وضو کرکے نماز پڑھے۔ نکلتے وقت ناک یا منہ پر ہاتھ یا کپڑا وغیرہ رکھ کر ایسا انداز اختیار کرسکتے ہیں جس سے دیکھنے والے کو یہ معلوم ہو کہ ناک یا منہ سے خون آرہاہے۔

البتہ  ایسی صورت میں نمازی کو اس بات کا اندازا لگانا چاہیے کہ آسانی سے نکلنا ممکن ہے یا نہیں، اگر آسانی  سے نکلنا ممکن ہو تو نکل جائے اور اگر آسانی سے  نکلنا ممکن  نہیں ہے تو  اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ امام کے ساتھ رکوع اور سجدے کرتا رہے، لیکن زبان سے کچھ نہ پڑھے، اور بعد میں وضو کرکے پوری نماز دوبارہ پڑھے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وقالا: يتشبه بالمصلين) أي احترامًا للوقت. قال ط: ولايقرأ كما في أبي السعود، سواء كان حدثه أصغر أو أكبر. اهـ. قلت: وظاهره أنه لاينوي أيضًا؛ لأنه تشبه لا صلاة حقيقية تأمل."

(1/252،253، باب التیمم، ط؛ سعید)

  وفیہ ایضا:

"قلت: وبه ظهر أنّ تعمد الصلاة بلا طهر غير مكفر كصلاته لغير القبلة أو مع ثوب نجس، وهو ظاهر المذهب كما في الخانية.

(قوله: غير مكفر) أشار به إلى الرد على بعض المشايخ، حيث قال المختار أنه يكفر بالصلاة بغير طهارة لا بالصلاة بالثوب النجس وإلى غير القبلة لجواز الأخيرتين حالة العذر بخلاف الأولى فإنه لا يؤتى بها بحال فيكفر. قال الصدر الشهيد: وبه نأخذ ذكره في الخلاصة والذخيرة، وبحث فيه في الحلية بوجهين: أحدهما ما أشار إليه الشارح. ثانيهما أن الجواز بعذر لا يؤثر في عدم الإكفار بلا عذر؛ لأن الموجب للإكفار في هذه المسائل هو الاستهانة، فحيث ثبتت الاستهانة في الكل تساوى الكل في الإكفار، وحيث انتفت منها تساوت في عدمه، وذلك لأنه ليس حكم الفرض لزوم الكفر بتركه، وإلا كان كل تارك لفرض كافرا، وإنما حكمه لزوم الكفر بجحده بلا شبهة دارئة اهـ ملخصا: أي والاستخفاف في حكم الجحود.

(قوله: كما في الخانية) حيث قال بعد ذكره الخلاف في مسألة الصلاة بلا طهارة وأن الإكفار رواية النوادر. وفي ظاهر الرواية لا يكون كفرا، وإنما اختلفوا إذا صلى لا على وجه الاستخفاف بالدين، فإن كان وجه الاستخفاف ينبغي أن يكون كفرا عند الكل. اهـ.

أقول: وهذا مؤيد لما بحثه في الحلية لكن بعد اعتبار كونه مستخفًا ومستهينًا بالدين كما علمت من كلام الخانية، وهو بمعنى الاستهزاء والسخرية به، أما لو كان بمعنى عد ذلك الفعل خفيفًا وهينًا من غير استهزاء ولا سخرية، بل لمجرد الكسل أو الجهل فينبغي أن لا يكون كفرًا عند الكل، تأمل."

(1/81، کتاب الطہارۃ، ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204201094

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں