بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جماعت کی نماز میں کسی نے تصویر والی شرٹ پہنی ہو تو کیا کرے؟


سوال

اگر مسجد  میں جماعت  کی نماز میں آگے کھڑے  ہونے  والے شخص نے واضح تصویر والی شرٹ پہنی ہوئی ہو تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اوراگر نماز پڑھ لی تو نماز ہو جاۓگی؟

جواب

تصویر والی شرٹ میں نماز پڑھنا مکروہ ہے اور  نمازی کے سامنے یا دائیں بائیں یا اس کے اوپر تصویر ہو تو ایسی جگہ  بھی نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

صورتِ  مسئولہ میں اگر ایسے شخص کو سمجھانے میں فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو اسے حکمت کے ساتھ سمجھا دیا جائے۔ اور بہتر ہے  کہ مسجد کی انتظامیہ کو اس مسئلے کی طرف متوجہ کیا جائے اور مسجد کے امام صاحب  سے درخواست کی جائے کہ وقتاً فوقتاً لوگوں کو اس مسئلے کے متعلق آگاہی کریں۔تاہم  چوں کہ یہ  سائل  کے اختیار  میں نہیں ہے، اور بعض اوقات منع کرنے میں فتنے کا اندیشہ ہوتاہے؛ لہذا سائل گناہ گار نہیں ہوگا  اور نماز  ادا ہوجائے  گی۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (1 / 648):

"وأن يكون فوق رأسه أو بين يديه أو ( بحذائه ) يمنة أو يسرة أو محل سجوده ( تمثال ) ولو في وسادة منصوبة لا مفروشة  (واختلف فيما إذا كان) التمثال ( خلفه والأظهر الكراهة) ( و ) لا يكره ( لو كانت تحت قدميه ) أو محل جلوسه لأنها مهانة ( و في يده ) عبارة الشمني بدنه لأنها مستورة بثيابه ( أو على خاتمه ) بنقش غير مستبين، قال في البحر: ومفاده كراهة المستبين لا المستتر بكيس أو صرة أو ثوب آخر وأقره المصنف (أو كانت صغيرةً) لاتتبين تفاصيل أعضائها للناظر قائمًا وهي على الأرض، ذكره الحلبی".

وفیه أیضاً:

"(قوله: ومفاده) أي مفاد التعليل بأنها مستورة (قوله: لا المستتر بكيس أو صرة) بأن صلى ومعه صرة أو كيس فيه دنانير أو دراهم فيها صور صغار فلاتكره لاستتارها، بحر، ومقتضاه أنها لو كانت مكشوفةً تكره الصلاة مع أن الصغيرة لاتكره الصلاة معها كما يأتي، لكن يكره كراهة تنزيه جعل الصورة في البيت، نهر (قوله: أو ثوب آخر) بأن كان فوق الثوب الذي فيه صورة ثوب ساتر له فلاتكره الصلاة فيه لاستتارها بالثوب بحر".

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144208201448

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں