بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جماعت کی نماز فوت ہونے کے بعد فجر کی سنتوں کا حکم


سوال

کیا جب فجر کی جماعت ہوجائے اور بندہ جماعت کے ساتھ نہ مل سکے اور امام کا سلام پھیرنے کے بعد بندہ سنت ادا کرے یا صرف فرض ادا کرے؟

جواب

صورت مسئولہ میں جب فجر کی جماعت فوت ہوجائے  اور وقت میں وسعت ہو تو  پھر پہلے سنت ادا کرے اور اس کے بعد فجر کے فرض ادا کرے، کیونکہ صرف جماعت کے حصول کے لیے اور وقت کی تنگی کی صورت میں  فجر کی سنتین چھوڑنے کی گنجائش ہے، جب جماعت کا حصول ممکن ہی نہیں ہے اور وقت میں بھی وسعت ہے  تو پھر سنتیں ادا کی جائیں گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإذا خاف فوت) ركعتي (الفجر لاشتغاله بسنتها تركها) لكون الجماعة أكمل (وإلا) بأن رجا إدراك ركعة في ظاهر المذهب. وقيل التشهد واعتمده المصنف والشرنبلالي تبعا للبحر، لكن ضعفه في النهر (لا) يتركها بل يصليها عند باب المسجد إن وجد مكانا وإلا تركها لأن ترك المكروه مقدم على فعل السنة.

(قوله وإذا خاف إلخ) علم منه ما إذا غلب على ظنه بالأولى نهر. وإذا تركت لخوف فوت الجماعة فالأولى أن تترك لخوف خروج الوقت ط عن أبي السعود.....(قوله لكون الجماعة أكمل) لأنها تفضل الفرد منفردا بسبع وعشرين ضعفا لا تبلغ ركعتا الفجر ضعفا واحدا منها لأنها أضعاف الفرض، والوعيد على الترك للجماعة ألزم منه على ركعتي الفجر، وتمامه في الفتح والبحر."

(کتاب الصلاۃ باب ادراک الفریضہ ج نمبر ۲ ص نمبر ۵۶،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101336

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں