بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جماعت کا انتظار بیٹھ کر کرنا مستحب ہے


سوال

بعض لوگ مسجد میں آکر امام کے آنے کا انتظار یا جماعت کھڑی ہونے کا انتظار کھڑے ہو کر کرتے ہیں۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا ان کا یہ عمل درست ہے یا  انہیں بیٹھ کر انتظار کرنا چاہیے ؟ نیز اس مسئلے میں جماعت کا وقت ہوچکاہو یا ابھی کچھ منٹ باقی ہوں ، ان دونوں صورتوں میں حکم کے اعتبار سے کوئی فرق ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ  نبی کریم ﷺ نے مقتدیوں کو امام کے آنے سے قبل کھڑے ہونے سے منع فرمایا ہے، صحیح بخاری کی روایت ہے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب نماز کھڑی ہوجائے تو تم کھڑے نہ ہو، جب تک مجھے اپنی طرف آتا ہوا نہ دیکھ لو۔مفتی شفیع عثمانی صاحب نوراللہ مرقدہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں کھڑے ہونے سے ممانعت کراہتِ تنزیہی کے لیے ہے۔

مقتدیوں کو کس وقت کھڑا ہونا چاہیے؟  اس بارے میں  فقہا نے تفصیل ذکر فرمائی ہے، چناچہ اس مسئلے میں تین صورتیں  ہیں۔

1)پہلی صورت یہ ہے کہ امام اور مقتدی دونوں پہلے سے مسجد میں موجود ہوں اور مؤذن اقامت کہے تو اس صورت میں امام اور مقتدی دونوں کو اس وقت کھڑا ہونا چاہے جب مؤذن " حی علی الفلاح " کہے۔

واضح رہے کہ فقہا نے اس صورت میں جو " حی علی الفلاح " پر کھڑے ہونے کو مستحب قرار دیا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پہلے کھڑا ہونا مکروہ  یا خلافِ اولی ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد بیٹھے رہنا خلافِ ادب ہے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ  " حی علی الفلاح " پر کھڑے ہونے کی علت فقہا نے یہ ذکر فرمائی ہے کہ " حی علی الفلاح " کھڑے ہونے کا امر ہے، اس لیے جب مؤذن  " حی علی الفلاح " کہے تو اس  وقت کھڑے ہونے میں مسارعت کرنی چاہیے ۔

فقہا کی بیان کردہ اس علت سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ " حی علی الفلاح " پر قیام کے مستحب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد بیٹھے رہنا خلافِ ادب ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پہلے کھڑا نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ اس سے پہلے کھڑا ہونا  زیادہ بہتر ہے  کیوں کہ اس میں مسارعت الی الطاعت زیادہ پائی  جاتی ہے۔

2) دوسری صورت یہ ہے کہ امام مسجد سے باہر ہو اور جماعت کے وقت مسجد میں صفوں کی طرف سے داخل ہوتو اس صورت میں حکم یہ ہے کہ امام جس صف سے آگے بڑھتا جائے اس صف کے لوگ کھڑے ہوتے جائیں۔

3) اور تیسری صورت یہ ہے کہ امام مقتدیوں کے سامنے سے داخل ہو۔ اس صورت کا حکم یہ ہے کہ مقتدی جیسے امام کو دیکھیں اسی وقت سب مقتدی کھڑے ہوجائیں اور جب تک امام مسجد میں داخل نہ ہو اس وقت تک مقتدی کھڑے نہ ہوں ۔

لہذا مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں، جو لوگ مسجد میں آکر امام کے آنے کا یا جماعت کھڑی ہونے کا انتظا ر کھڑے ہو کر کرتے ہیں ان کا یہ عمل شرعاً خلافِ اولی اور غیرمناسب ہے ، امام کے آنے کا انتظار بیٹھ کر ہی کرنا چاہیے۔ جماعت کھڑی ہونے کا وقت ہوچکا ہو یا ابھی کچھ وقت باقی ہو، دونوں صورتوں کا یہی ایک ہی حکم ہے ۔ کیوں کہ اوپر جو حدیث ذکر کی گئی  ہے اس  کے مفہوم میں محدثین نے صراحت کی  ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جماعت کا وقت ہونے پر کھڑے ہوجاتے تھے اور نبی کریم ﷺ کو بعض اوقات  کسی کام کی وجہ سے تاخیر ہوجاتی تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا کہ جب تک تم مجھے آتا ہوا نہ دیکھ لو اس وقت تک تم کھڑا نہ ہوا کرو ۔

پس معلوم ہوا کہ مذکورہ حدیث میں اصالۃً جس صورت میں امام کے آنے سے پہلے کھڑا ہونے سے منع کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ جماعت کا وقت ہوجائے اور امام کو کسی وجہ سے تاخیر ہورہی ہو ۔ لہذا دونوں صورتوں میں مستحب طریقہ یہی  ہےکہ جماعت کھڑی ہونے کا انتظار یا امام کے آنے کا انتظار مقتدیوں کو بیٹھ کر ہی کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ فقہاء کرام کا بیان کردہ مذکورہ بالا حکم مغرب کے علاوہ دیگر نمازوں کے لیے ہے، مغرب کی نماز میں  اذان کے بعد امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک بیٹھ کر نماز کا انتظار کرنا مسنون نہیں ہے، لہذا مغرب کی نماز میں کھڑے ہو کر نماز کا انتظار کرنا بہتر ہے،  باقی نمازوں میں بیٹھ کر انتظار کرنا اور مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق کھڑا ہونا بہتر ہے، تاہم اگر کوئی شخص معذور ہو مثلاً گھٹنوں میں تکلیف کی وجہ سے اسے بیٹھ کر کھڑے ہونے میں دشواری ہوتی ہو تو ایسے شخص کے لیے تمام نمازوں میں  کھڑے ہو کر انتظار کرنے میں  کوئی حرج نہیں ہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن عبد الله بن أبي قتادة، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا أقيمت الصلاة، فلا تقوموا حتى تروني۔"

(الصحیح للبخاری، جلد1، کتاب الصلوۃ، باب متی یقوم الناس، اذا راوا الامام عندالاقامة، ص: 129، ط: المطبعة الکبری الامیریة، مصر)

جواہر الفقہ میں ہے:

"  گھر میں سے باہر تشریف لانے سے پہلے اقامت کہنے اور لوگوں کے کھڑے ہونے سے منع فرمایا ہے وہ بھی از روئے شفقت ممانعت تھی ، جس کو فقہائے کرام کی زبان میں مکروہ تنزیہی کہا سکتا ہے۔"

( جلد 2، قیام عندالاقامہ کا حکم، ص: 431 )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إن كان المؤذن غير الإمام وكان القوم مع الإمام في المسجد فإنه يقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن: حي على الفلاح عند علمائنا الثلاثة وهو الصحيح فأما إذا كان الإمام خارج المسجد فإن دخل المسجد من قبل الصفوف فكلما جاوز صفا قام ذلك الصف وإليه مال شمس الأئمة الحلواني والسرخسي وشيخ الإسلام خواهر زاده وإن كان الإمام دخل المسجد من قدامهم يقومون كما رأى الإمام۔"

(فتاوی هندیة، جلد1، کتاب الصلوۃ ، الباب الثانی فی الاذان، الفصل الثانی فی الفاظ الاذان و الاقامة و کیفیتهما، ص: 57، ط: مکتبة رشیدیة)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله والقيام حين قيل حي على الفلاح) ؛ لأنه أمر به فيستحب المسارعة إليه۔"

(البحر الرائق، جلد1، کتاب الصلوۃ، باب سنن الصلوۃ، ص: 321، ط: دار الکتاب الاسلامی)

فتح الباری میں ہے:

"كان سبب النهي عن ذلك في حديث أبي قتادة أنهم كانوا يقومون ساعة تقام الصلاة ولو لم يخرج النبي صلى الله عليه وسلم فنهاهم عن ذلك لاحتمال أن يقع له شغل يبطىء فيه عن الخروج فيشق عليهم انتظاره۔"

(فتح الباری، جلد2، کتاب الصلوۃ، باب متی یقوم الناس، اذا راوا الامام عند الاقامة، ص: 120، ط: دار المعرفة، بيروت)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: ويجلس بينهما إلا في المغرب) أي ويجلس المؤذن بين الأذان والإقامة على وجه السنية إلا في المغرب فلا يسن الجلوس بل السكوت مقدار ثلاث آيات قصار أو آية طويلة أو مقدار ثلاث خطوات وهذا عند أبي حنيفة۔"

( البحر الرائق، المجلد1، كتاب الصلوة، باب الاذان، ص: 275، ط: دار الكتاب الاسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100247

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں