بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جماعت اول اگر فاسد ہوجائے تو جماعتِ ثانیہ کون پڑھائے گا؟


سوال

جماعت اول اگر فاسد ہوجائے تو جماعتِ ثانیہ کون پڑھائے گا؟وہی امام یا کوئی اور۔

جواب

مذکورہ صورت میں اگرجماعت  اول والوں کی نماز  فاسد ہوگئی تو دوبارہ  جماعت کرتے وقت پہلے والا امام یا امامت کے قابل دوسرا آدمی نماز پڑھا سکتا ہے،البتہ اگر کوئی امام متعین ہو تو وہی امام پڑھانے کا زیادہ حقدار ہے،اور اگر نماز کی فرضیت ادا ہوگئی تھی،صرف واجب میں کمی رہ گئی تھی،تو اس صورت میں دوسری جماعت میں نئے نمازی کے لیے شامل ہونا درست نہیں ہوگا۔

"ردالمحتار" میں ہے:

"(و) اعلم أن (صاحب البيت) ومثله إمام المسجد الراتب (أولى بالإمامة من غيره) مطلقا (إلا أن يكون معه سلطان أو قاض فيقدم عليه) لعموم ولايتهما، وصرح الحدادي بتقديم الوالي على الراتب (والمستعير والمستأجر أحق من المالك) لما مر.

و في الرد : (قوله مطلقا) أي وإن كان غيره من الحاضرين من هو أعلم وأقرأ منه."

(کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، ج:1، ص:559، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وكذا كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها. والمختار أنه جابر للأول لأن الفرض لا يتكرر

(قوله وكذا كل صلاة إلخ) الظاهر أنه يشمل نحو مدافعة الأخبثين مما لم يوجب سجودا أصلا، وأن النقص إذا دخل في صلاة الإمام ولم يجبر وجبت الإعادة على المقتدي أيضا وأنه يستثنى منه الجمعة والعيد إذا أديت مع كراهة التحريم إلا إذا أعادها الإمام والقوم جميعا فليراجع ."

أقول: وقد ذكر في الإمداد بحثا أن كون الإعادة بترك الواجب واجبة لا يمنع أن تكون الإعادة مندوبة بترك سنة اهـ ونحوه في القهستاني، بل قال في فتح القدير: والحق التفصيل بين كون تلك الكراهة كراهة تحريم فتجب الإعادة أو تنزيه فتستحب اهـ."

(كتاب الصلاة، ج:1، ص:457، ط:سعيد)

"حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح "میں ہے:

"وكذا الحكم في كل صلاة أديت مع كراهة التحريم ‌والمختار ‌أن ‌المعادة لترك واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولى لأن الفرض لا يتكرر كما في الدر وغيره."

(كتاب الصلاة، ص:248، ط: دارالكتب العلمية)

"فتح القدير"میں ہے:

"‌ولا ‌إشكال ‌في ‌وجوب ‌الإعادة إذ هو الحكم ‌في كل صلاة أديت مع كراهة التحريم ويكون جابرا للأول لأن الفرض لا يتكرر، وجعله الثاني يقتضي عدم سقوطه بالأول وهو لازم ترك الركن لا الواجب، إلا أن يقال: المراد أن ذلك امتنان من الله تعالى إذ يحتسب الكامل وإن تأخر عن الفرض لما علم سبحانه أنه سيوقعه."

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ج:1، ص:301، ط:دارالفكر)

"فتاوی محمودیہ "میں ہے:

"اعادہ والی نماز میں شرکت

سوال:اگر جماعت میں شبہ ہوجائے اور اس شبہ کی وجہ سے پھر اعادہ کیا جاوےتو جو نمازی پہلی نماز میں شریک نہیں تھے ابھی آتے ہوں تو وہ اس نماز میں شریک ہوسکتے ہیں یا نہیں؟مفصل تحریرفرمائیں کس صورت میں شرکت جائز ہے؟

جواب:اگر فرض ترک ہونے کی بنا پر اعادہ ہواہے تو اس میں  شریک ہونا نئے آدمی کادرست ہے،کیوں کہ پہلی نماز باطل ہوگئی اور اگر ترکِ واجب کی وجہ سے اعادہ ہوا ہےتو نئے آدمی کی شرکت درست نہیں،کیوں کہ فرض پہلی نماز سے ادا ہوچکا ہےاور یہ صرف تکمیل ہے۔"

(ج:6، ص:444، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405101129

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں