بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جماعت میں نکلنے کی وجہ سے تراویح میں ختم قرآن رہ جانے کا حکم


سوال

1) مروجہ تبلیغی  طریقہ کار میں خواتین کا اپنے  محرم اور پردے کے ساتھ جماعت میں نکلنا کیسا ہے؟

2) تراویح میں قرآن کریم کا ختم سنت مؤکدہ ہے یا غیر مؤکدہ؟

3) تراویح کے دوران سہ روزے کے لیے نکلنا کیسا ہے جب کہ اس سے قرآن کریم درمیان میں رہ جائے؟

جواب

1)تبلیغ دین  کے لئے مردوں کی طرح عورتوں کی جماعت کا خروج قرون ِاولی سے یا کسی نصِ شرعی یا روایت فقہی سے ثابت نہیں، بلکہ عورتوں کے لئے نصوص و روایات سے  گھروں میں تلاوتِ قرآن، قرآنی تعلیم اور احادیث کو پڑھنے، ان پر عمل کرنے، شوہر کے حقوق کو پہچان کران  حقوق کو ادا کرنے کا حکم ہے، لہذا ایسے حالات میں مستورات کی جماعت اس پر فتن دور میں ہرگز جائز نہیں ہے،البتہ شوہر کے ساتھ یا شوہر کی اجازت سے محلہ کے کسی گھر میں وعظ وتقریر سننے کے لئے جمع ہو جائیں، وہاں پر کوئی عالمہ عورت یا پردے کے ساتھ کوئی دینی عالم ،دین کے بارے میں اور احکام و مسائل کے بارے میں بیان کرے تو جائز ہے یہاں تک تو سنت و حدیث سے ثابت ہے کہ مدینہ منورہ کی عورتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں محلہ کے کسی مکان میں جمع ہو جاتیں اور نبی کریم، صلی اللہ علیہ وسلم اس مکان میں تشریف لےجاتے اور تقریر و وعظ و خطاب سے ان کے دلوں کو منور فرماتے،ویسے بدون محرم کے یا محرم کے ساتھ مگر بے پردہ ہو کر یا بن سنور کر اچھے اچھے لباس کے ساتھ جیسا کہ آج کل کے دور میں معمول اور مشاہدہ ہے،نکلنا جائز نہیں ہے، مزید یہ کہ مروجہ تبلیغ نہ فرض عین ہے، نہ واجب ہے،بلکہ فرض کفایہ ہے، جس کو بے شمار مرد حضرات مختلف انداز میں مختلف طریقے پر انجام دے رہے ہیں، ان کے ہوتے ہوئے عورتوں کی جماعت کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی ، لہذا خواتین  جماعت کی شکل میں باہر نہ جائیں کیونکہ قرآن حکیم کا واضح حکم یہ ہے" وَقَرْنَ فِي بِيُوتِكُنَّ" جس پر عمل کرنا ضروری اور واجب ہے، اسی حکم کے تحت عورتوں کو مسجد کی جماعت(فرض نماز،تراویح کی نماز)، جمعہ کی نماز عیدین کی نماز،جنازہ کی نماز، تدفین میت، جہاد فی سبیل اللہ امامت صغریٰ (نمازوں کی امامت) اور امامت کبری ( ملک کی حکمرانی) وغیرہ امور اسلامیہ سے سبکدوش کر دیا گیا ہے تا کہ ان کو بلا ضرورت شدیدہ گھر سے باہر جانا نہ پڑے، اورچشمِ غیر سے زیادہ سے زیادہ پوشید ہ ر ہیں، کیونکہ عورت کی ذات اپنی فطرت کے اعتبار سے چھپی رہنے کی چیز ہے چنانچہ ارشاد نبوی ہے:

"عن عبد الله بن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:المرأة عورة، وإنها إذا خرجت ‌استشرفها ‌الشيطان، وإنها أقرب ما يكون إلى الله وهي في قعر بيتها."(الطبراني:١٠٨/١٠)

 "روح المعانی"میں ہے:

"‌وقرن ‌في ‌بيوتكن... والمراد على جميع القراءات أمرهن رضي الله تعالى عنهن بملازمة البيوت وهو أمر مطلوب من سائر النساء.أخرج الترمذي والبزار عن ابن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم قال"إن المرأة عورة فإذا خرجت من بيتها استشرفها الشيطان وأقرب ما تكون من رحمة ربها وهي في قعر بيتها"وأخرج البزار عن أنس قال" جئن النساء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلن" يا رسول الله ذهب الرجال بالفضل والجهاد في سبيل الله تعالى فهل لنا عمل ندرك به فضل المجاهدين في سبيل الله تعالى" فقال عليه الصلاة والسلام"من قعدت منكن في بيتها فإنها تدرك عمل المجاهدين في سبيل الله تعالى."

وقد يحرم عليهن الخروج بل قد يكون كبيرة كخروجهن لزيارة القبور إذا عظمت مفسدته وخروجهن ولو إلى المسجد وقد استعطرن وتزين إذا تحققت الفتنة أما إذا ظنت فهو حرام غير كبيرة."

(ص:188،ج:11،سورۃ الأحزاب،الآية:33،ط:دار الكتب العلمية)

"أحکام القرآن للجصاص" میں ہے:

"وقرن في بيوتكن ...وفيه الدلالة على أن النساء مأمورات بلزوم البيوت ‌منهيات ‌عن ‌الخروج."

(ص:471،ج:3،سورۃ الأحزاب،الآية:33،ط:دار الكتب العلمية)

2)تراویح میں قرآن شریف کا ایک دفعہ ختم کرنا سنت مؤکدہ ہے۔

"فتح القدیر"میں ہے:

"وأكثر المشايخ رحمهم الله على أن السنة فيها الختم مرة ‌فلا ‌يترك ‌لكسل ‌القوم، بخلاف ما بعد التشهد من الدعوات حيث يتركها لأنها ليست بسنة."

(ص:469،ج:1،باب النوافل،‌‌فصل في قيام شهر رمضان،ط:دار الفكر)

"رد المحتار"میں ہے:

"قوله والختم ‌مرة سنة أي قراءة ‌الختم في صلاة التراويح سنة وصححه في الخانية وغيرها، وعزاه في الهداية إلى أكثر المشايخ. وفي الكافي إلى الجمهور، وفي البرهان: وهو المروي عن أبي حنيفة والمنقول في الآثار."

(ص:46،ج:2،کتاب الصلوۃ،‌‌باب الوتر والنوافل ،ط:سعيد)

فتاویٰ رحیمیہ  میں ہے:

"سوال:

ماہ رمضان میں تراویح میں ایک قرآن ختم کر نا فقہاء نے سنت لکھا ہے اس سے کونسی سنت مراد ہے مؤکد ہ یا غیر مؤکده؟ مفصل مدلل جواب مرحمت فرما ئیں؟ بینوا توجروا۔ 

الجواب وباللہ التوفیق:

صحیح مذہب اور قول اصح یہ ہے کہ تراویح میں ایک قرآن ختم کرنا سنت مؤکدہ ہے۔ قوم کی کا ہلی کی وجہ سے اسے ترک نہ کیا جائے اور دو ختم کرنے میں فضیلت ہے اور تین ختم کرنا افضل ہے جہاں فقہاء نے ایک ختم کو سنت لکھا ہے اس سے ظاہراً سنت موکدہ مراد ہے۔"

(ص:249،ج:6،مسائل تراویح،دار الاشاعت،کراچی)

3)چوں کہ تراویح میں ایک مرتبہ مکمل قرآن ختم کرنا اور سننا،سنتِ مؤکدہ ہے،لہذا اس سنت کے پورا ہونے کے بعد سہ روزہ اور چلہ وغیرہ کے لیے نکلا جائے،اگر  آدمی قرآن کریم کی تکمیل کو درمیان میں چھوڑ کر کسی اور کام میں مصروف ہوجائے تو یہ سنت کا بلا عذر ترک اور شفاعت سے محرومی کا سبب ہے،ہاں اگر سہ روزہ میں بھی تراویح کی نماز میں قرآن مجید کے ختم کا سلسلہ جاری رکھے تو درست ہے۔

"ألقرآن الكريم"میں ہے:

"وَمَنْ ‌أَحْسَنُ ‌قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ."(الآية:33،سورة:حٓم السجدة)

ترجمہ:"اور اس سے بہتر کس کی بات ہو سکتی ہے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بُلائے اور خود بھی نیک عمل کرے اور یہ کہے کہ میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔"(از بیان القرآن)

"رد المحتار"میں ہے:

"الحاصل أن السنة إن كانت مؤكدة قوية لا يبعد كون تركها مكروها تحريما، وإن كانت غير مؤكدة فتركها مكروه تنزيها. وأما المستحب أو المندوب فينبغي أن يكره تركه أصلا."

(ص:653،ج:1،کتاب الصلوۃ،‌‌‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها ،ط:سعيد)

"رد المحتار"میں ہے:

"ترك السنة المؤكدة قريب من الحرام يستحق حرمان ‌الشفاعة، لقوله عليه الصلاة والسلام :من ترك سنني لم ينل شفاعتي . اهـ. وفي التحرير: إن تاركها يستوجب التضليل واللوم،. اهـ. والمراد الترك بلا عذر."

(ص:104،ج:1،کتاب الطهارة،‌‌‌‌سنن الوضوء ،ط:سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144409100391

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں