بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جماعت اسلامی، بریلوی اوراہل حدیث مسلک سے تعلق رکھنے والے امام کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا حکم


سوال

144311101937 اس فتوی نمبر کے سوال(اہل سنت والجماعت سے خارج شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے یا نہیں) کی وضاحت یہ ہے کہ، اہل حق نے بریلوی ،اہل حدیث،جماعت اسلامی پر، اہل سنت والجماعت سے خارج ہونے کا فتویٰ لگا رکھا ہے تو ان فرقوں  کے امام کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص کی اقتدا  میں نماز کے جوازاورعدمِ جواز کا تعلق اس کے عقیدے اور نظریے سے ہے ؛ لہٰذا اگر امام( سوال میں مذکورہ کسی  بھی جماعت سے تعلق رکھنے والا ہو)  کا کوئی شرکیہ عقیدہ نہ ہو ، تو اس کے اقتدا میں نماز پڑھنا شرعا درست ہے، البتہ پھر بھی احتیاط کرنا ضروری ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر  بریلوی امام  کا عقید ہ حدِکفر و شرک تک نہ پہنچتا  ہو، صرف بدعات میں مبتلا ہو  تو اس کی اقتدا میں نماز جائز ہوگی  اورعقیدہ حدِکفر و شرک تک پہنچنےکی صورت میں اس کی اقتدا میں نماز نہیں ہوگی اور اگر  امام کا حال معلوم نہ ہو تو مکروہ تحریمی ہے۔

اسی طرح غیرمقلد اگر خوش عقیدہ ہو، یعنی ائمہ سلف کو بُرا بھلا نہ کہتا ہو اور مسائل میں مقتدیوں کے مذہب کی رعایت کرتا ہو، تو اس کے پیچھے نمازجائز ہوگی،اوراگر سلف صالحین اورائمہ کوبرابھلاکہتاہو اورمقتدیوں کے مذہب کی ان امور کی رعایت نہ رکھتا ہو جن پر نماز کا ہونا نہ ہونا موقوف ہو تواس کی اقتدا  میں نماز پڑھنادرست نہیں اور اامام کا حال معلوم نہ ہونے کی صورت میں اس کے اقتدا میں نماز مکروہ ہے۔

جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے امام کا بھی یہ ہی حکم ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره) قال المرغيناني تجوز الصلاة خلف صاحب هوى وبدعة ولا تجوز خلف الرافضي والجهمي والقدري والمشبهة ومن يقول بخلق القرآن وحاصله إن كان هوى لا يكفر به صاحبه تجوز الصلاة خلفه مع الكراهة وإلا فلا. هكذا في التبيين والخلاصة وهو الصحيح."

[كتاب الصلاة، ج:1، ص:84، ط:دار الفكر بيروت]

مراقی الفلاح میں ہے:

"والرابع عشر من شروط صحة الاقتداء "أن لا يعلم المقتدي من حال إمامه مفسدا في زعم المأموم كخروج دم وقيء لم يعد بعده وضوءه ... حتى لو غاب بعدما شاهد منه ذلك بقدر ما يعيد الوضوء ولم بعلم حاله فالصحيح جواز الاقتداء مع الكراهة كما لو جهل حاله بالمرة وأما إذا علم منه أنه لا يحتاط في مواضع الخلاف يصح الاقتداء به سواء علم حاله في خصوص ما يقتدى به فيه أو لا وإن علم أنه يحتاط في مواضع الخلاف يصح الاقتداء به على الأصح."

(کتاب الصلاة، باب الإمامة، ص:112، ط: المكتبة العصرية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما ‌الاقتداء ‌بالمخالف في الفروع كالشافعي فيجوز ما لم يعلم منه ما يفسد الصلاة على اعتقاد المقتدي عليه الإجماع، إنما اختلف في الكراهة. اهـ فقيد بالمفسد دون غيره كما ترى. وفي رسالة [الاهتداء في الاقتداء] لمنلا علي القارئ: ذهب عامة مشايخنا إلى الجواز إذا كان يحتاط في موضع الخلاف وإلا فلا."

[كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:563، ط:سعيد]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102180

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں