بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جعلی پاور آف اتھارٹی بنانے سے پراپرٹی کے مالک بننے کا حکم


سوال

ایک فرد کسی پراپرٹی کا (20)سال سے قانونی طور پر بغیر کسی نزاع کے تنہا مالک ہو،اور پھر اُس کی لاعلمی میں اچانک اُس کا بھائی، یا بہن، یا والد یا والدہ ایک جعلی پاور آف اٹارنی بنوا کر اُس میں یہ جھوٹ لکھے کہ پراپرٹی کے مالک نے اُس کو یہ اختیار خود سونپ دیا ہے کہ وہ اِس کی ملکیت میں جو چاہے تصرف کرسکتا ہے، یہاں تک کہ کسی ہدیہ بھی کرسکتا ہے اور بیچ بھی سکتا ہے،  ایسے دستاویز میں یہ شخص اصل مالک کے جعلی دستخط کسی سے کروائے، اپنے پاس موجود کوئی پرانی تصویر اور شناختی کارڈ کی کاپی بھی مالک کی لگادے،  اور ساتھ ہی ایک حلف نامہ بھی لکھ دے کہ اِس پراپرٹی اور اِس کے اصل مالک کے حوالے سے جو کچھ وہ بیان کر رہا ہے، وہ حقیقت پر مبنی ہے اور اگر کوئی غلط بیانی ثابت ہوئی تو اُس کی ذمہ داری خود اُسی پر عائد ہوگی،  اِس طرح کے جعلی دستاویزات بنانے کے بعد یہ شخص رجسٹرار کو رشوت دے کر اِس پراپرٹی کا کچھ حصہ یا چند منزلیں اپنے نام پر، یا اپنی بیوی کے نام پر یا اپنے کسی اور عزیز کے نام پر کرادے تو اِس پر درجِ ذیل  سوالات پیش خدمت ہیں:

1-  مندرجہ بالا عمل کی دینی وشرعی حیثیت کیا ہے اور ایسے شخص کے اِس عمل کے بارے میں دینِ اسلام کیا حکم لگاتا ہے؟

2-  جعلی دستاویزات کی بنیاد پر جس پراپرٹی کو اپنے یا اپنے کسی عزیز کے نام پر کرایا گیا تھا، کیا شرعاً ایسا شخص یا اُس کی بیوی یا بیٹی واقعتًا اِس پراپرٹی کی نئی مالک تصور کیا جا سکتی ہے یا پھر اِس عمل کی کوئی دینی حیثیت نہیں ہوگی، دین کے اعتبار سے حقیقی مالک ہی مالک قرار دیا جائے گا؟ 

جواب

1- صورتِ مسئولہ میں اگر سوال میں ذکر کردہ بیان درست ہے کہ مذکورہ شخص نے  کسی پراپرٹی کے اصل مالک کی طرف منسوب کرتے ہوئے  جعلی پاور آف اتھارٹی بنائی گئی، اور پھر ان کی طرف سے جعلی دستخط وغیرہ بھی کیے گئے ہیں، تو یہ پراپرٹی  مالک کے ساتھ  دھوکہ اور خیانت ہے، اور  احادیثِ مبارکہ میں دھوکہ باز اور خیانت کرنے والے کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہے، لہذا مذکورہ شخص پر لازم ہے  کہ اپنے مذکورہ فعل پر مالک سے معافی مانگ کر صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرے۔

2: سوال میں ذکر کردہ بیان کے مطابق محض جعلی پاور آف اتھارٹی بنانے سے مذکورہ پراپرٹی سے مالک کی ملکیت ختم نہیں ہوئی اور اس جعلسازی کی وجہ سے مذکورہ جعلساز شخص اس پراپرٹی کا مالک نہیں ہوا ، لہذا مذکورہ پراپرٹی اس کے اصل مالک ہی کی ملکیت ہے، جنہوں نے مذکورہ پراپرٹی اپنے یا اپنے کسی رشتہ دار کے نام کی ہے، تو محض نام کرنے سے وہ اس کے مالک نہیں بنیں گے، جب تک مالک خود شرعی قبضہ کے ساتھ پراپرٹی حوالہ نہ کرے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

(الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لایجوز، ج:4،ص:378،ط:مکتبة رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(کتاب الھبة،ج:5،ص:690، ط :ایچ ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311100573

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں