بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جعلی نکاح نامہ بنوانے سے نکاح نہیں ہوتا


سوال

میں شادی شدہ تھی ،میرے تین بچے تھے ،سسرال والوں نے کسی خاندانی دشمنی نکالنے  کے لیے  مجھے ایک لڑکے کے ساتھ بدنام کیا اور مجھے میرے شوہر نے طلاق دے دی اور میں غم و غصہ میں اسی لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی اور عدت  پوری نہیں کی اور جب اس کے  ساتھ نکاح کا وقت آیا تو ہم  نے مولوی صاحب کو بتایا کہ عدت پوری نہیں ہوئی تو مولوی صاحب نے نکاح پڑھانے سے انکار کردیا اور ہم ڈر گئے کہ کو ئی مسئلہ نہ ہوجائے ،پھر ہم کورٹ میں  گئے وہاں بھی  وکیل  نے نکاح کرنے سے انکار کردیاتو ہم نے وکیل کو پیسے دےکر ایک جعلی نکاح نامہ بنوایا اور  ساتھ رہنا شروع کردیا، وکیل نے کہا کہ جب عدت پوری ہوجائے تو دوبارہ نکاح کروا لینا ،لیکن ہم  نےنکاح نہیں کروایا اور  اسی طرح ایک سال  تک ساتھ رہے،ایک سال بعد  مجھے معلوم ہوا کہ ہمارا نکاح  نہیں  ہوا ، ہم زنامیں مبتلا ہیں ۔

1۔ مجھے بتایا جائے کہ  میرا  نکاح ہے یا میں دوبارہ نکاح  کروں یا اسی طرح زندگی گزاروں ؟

2۔کیا اسی جعلی نکاح نامہ والے لڑکے سے نکاح کر سکتی ہوں یا دوسری جگہ بھی نکاح کرسکتی ہوں؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں جعلی نکاح نامہ بنوانے کی وجہ سے سائلہ کانکاح مذکورہ لڑکے سے منعقد نہیں ہوا ،جتنا عرصہ ساتھ رہے ،زنا میں مبتلا رہے،اب فورًا الگ ہو جائیں اور  دونوں خوب توبہ و استغفار کریں ۔سائلہ اگر آئندہ مذکورہ لڑکے کے ساتھ رہنا چاہتی ہے تو دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلے۔

2۔اور اگر  سائلہ مذکورہ  لڑکے کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی  تو وہ  دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد  ہے۔

الدر المختار  میں ہے:

"(و ينعقد) متلبسًا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي) لأنّ الماضي أدل على التحقيق (كزوّجت) نفسي أو بنتي أو موكلتي منك(و) يقول الآخر (تزوجت، و) ينعقد أيضا (بما) أي بلفظين (وضع أحدهما له) للمضي (والآخر للاستقبال) أو للحال."

(کتاب النکاح :3/9،ط:سعید )

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"و أمّا بيان صيغة اللفظ الذي ينعقد به النكاح فنقول: لا خلاف في أن النكاح ينعقد بلفظين يعبر بهما عن الماضي كقوله: زوجت وتزوجت وما يجري مجراه. وأما بلفظين يعبر بأحدهما عن الماضي وبالآخر عن المستقبلكما إذا قال رجل لرجل: زوجني بنتك أو قال: جئتك خاطبا ابنتك أو قال جئتك لتزوجني بنتك فقال الأب: قد زوجتك أو قال لامرأة: أتزوجك على ألف درهم فقالت: قد تزوجتك على ذلك أو قال لها: زوجيني أو انكحيني نفسك فقالت: زوجتك أو أنكحت ينعقد استحسانًا."

(کتاب النکاح:2/231،ط: دار الكتب العلمية)

«فتاوی ہندیہ میں ہے :

"«لاتجب العدة على الزانية وهذا قول أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى، كذا في شرح الطحاوي»."

(الباب الثالث عشر فی العدۃ :526/1 ، ط :المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144304100164

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں