میرے شوہر ایک میڈیکل لیب چلاتے ہیں۔ پچھلے کچھ ماہ میں عمرہ زائرین کے لیے گردن توڑ بخار کی ویکسین لگوانا لازمی تھا۔ لیکن وہ ویکسین پاکستان میں مل نہیں رہی تھی۔ اگر ملتی تھی تو اس کی قیمت بہت زیادہ وصول کی جاتی تھی۔ ایسے میں عمرہ زائرین بغیر ویکسین لگواے صرف سرٹیفکیٹ بنوانے کو ترجیح دیتے۔ اور وہ سرٹیفکیٹ بنانے کے لیے بھی کچھ لیب رجسٹرڈ ہیں۔میرے شوہر عمرہ زائرین کو ان رجسٹرڈ لیب سے وہ سرٹیفکیٹ بنوا کے دیتے ہیں۔ کیا یہ کام ٹھیک ہے؟ اس سے آنے والی آمدنی جائز ہے؟ اگر انجانے میں کسی طرح سے حرام کما لیا تو اس کا کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں جعلی سرٹیفیکیٹ بنواکر جمع کرنا اور اس کو بیچنا ، دھوکا بازی اور خیانت شمار ہونے کی وجہ درست نہیں ہے۔سائلہ کی شوہر کے لیے یہ رقم لینا جائز نہیں، کیوں کہ یہ رقم دھوکا دینے میں معاونت کے بدلے میں ملی ہے۔اور سائلہ کی شوہر پر سچی دل سے توبہ کرنا واجب ہے، اس طرح جتنی رقم مل گئی اتنی رقم واپس کرنا واجب ہے۔ البتہ واپس کرنے کی صورت نا ممکن ہو تو بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کرنا لازم ہوگا۔
صحیح مسلم میں ہے:
"عن أبي هريرة أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن غشنا فليس منا ."
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔"
(صحيح مسلم، باب قول النبي ﷺ: من غشنا فليس منا،ج:1، ص:99، ط: دار إحياء التراث العربي)
فتاوٰی شامی میں ہے:
"(ويبرأ بردها ولو بغير علم المالك) في البزازية غصب دراهم إنسان من كيسه ثم ردها فيه بلا علمه برئ وكذا لو سلمه إليه بجهة أخرى كهبة أو إيداع أو شراء وكذا لو أطعمه فأكله."
(كتاب الغصب، ج:6،ص:182، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611100522
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن