بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جائز تعویذ اور دم درود کے ذریعے مریض کا مفت علاج کرنا مریض کی خدمت اور اس پر احسان ہے


سوال

مسئلہ یہ ہے کہ بکر تعویذات اور  دم  درود وغیرہ کے ذریعے روحانی علاج بلا کسی معاوضہ اور رقم کے   فری میں  خدمتِ خلق کے طور پر ثواب کی امید سے   کرتا ہے، بکر اتنا احتیاط کرتا ہے کہ یہ بھی نہیں بتاتا کہ جادو کس نے کیا،  چوری کس نے کی،  بکر کا کام صرف قرآن و حدیث کی دعاؤں سے علاج کرنا ہے، بکر خود بھی اور مریضوں کو  بھی اللہ تعالی پر بھروسہ کی تلقین کرتا ہے، ایک عالم کہتے ہیں کہ:" یہ  ہم پر کوئی احسان نہیں،  تم سب کا کام کرتے ہو"،  کیونکہ بکرنے اس عالم کے گھر والوں  کا علاج کیا تھا، اس لئے  وہ فرماتے ہیں کہ یہ احسان نہیں ہے،  یہ تو بکر کا کام ہے ،  جبکہ بکربلا معاوضہ علاج کرتا ہے۔

اب معلوم کرنا یہ  ہے کہ  بکر کایہ عمل  خدمتِ خلق ہے یا نہیں ؟ مریضوں پر احسان ہے یا نہیں ؟نیز  اس پر بکر کو  ثواب ملے گا یا نہیں ؟  جب کہ بکر  بطورِ خدمتِ خلق ، مریضوں پر احسان اور ثواب کے لئے مفت علاج کرتا ہے، اگر یہ خدمتِ خلق نہیں،  احسان نہیں، ثواب نہیں تو گویا نہ دین نہ دنیا، پھر  تو یہ کام اسراف اورنا  جائز ہوا  اور  بکر کو  یہ کام چھوڑدینا چاہیے ۔ قرآن و سنت اور فقہ کی روشنی میں  وضاحت فرما کر مشکور فرمائیں۔

جواب

صورت ِ مسئولہ میں سائل کا بیان اگر حقیقت پر مبنی ہے کہ بکر قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق قرآنی آیات اوراحادیث میں مذکور دعاؤں سے مریض کا علاج کرتا ہے اور اس پر  کسی قسم کا کوئی معاوضہ نہیں لیتا ہے تو  یہ بکر کی جانب سے  مریض کی خدمت اور اس پر احسان ہے اور اس کی وجہ سے  بکر کو  ثواب بھی  ملتا ہے،   لیکن بکر کے لیے نيكي كرنے كے بعد كسي پر  احسان  جتلانا درست نہیں ہے ،  احسان جتلانے سے سارا ثواب   جاتا رہے گا۔

قرآنِ کریم میں  باری تعالی کا ارشاد ہے :

{يَٰٓأَ يُّهَا ٱلَّذِيْنَ ءَامَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُم بِٱلْمَنِّ وَٱلْأَذَىٰ} [البقرة: 264]

«مشكاة المصابيح» میں ہے :

"و عن أنس قال: رخص رسول الله صلى الله عليه وسلم في الرقية من العين والحمة والنملة." رواه مسلم."

و فیہ ایضا :

"و عن جابر قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرقى فجاء آل عمرو بن حزم فقالوا: يا رسول الله إنه كانت عندنا رقية نرقي بها من العقرب وأنت نهيت عن الرقى فعرضوها عليه فقال: «ما أرى بها بأسا من استطاع منكم أن ينفع أخاه فلينفعه» . رواه مسلم.

و عن عوف بن مالك الأشجعي قال: كنا نرقي في الجاهلية فقلنا: يا رسول الله كيف ترى في ذلك؟ فقال: «اعرضوا علي رقاكم لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك» ." رواه مسلم."

(كتاب الطب و الرقي ، الفصل الأول: 2 / 1280 ، ط : المكتب الاسلامي)

فقط و اللہ أعلم


فتوی نمبر : 144305100533

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں