بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جائز کام کے لیے مجبوراً رشوت دینا


سوال

 میں پان اور پتی اور سگریٹ کا ہول سیل میں کام کرتا ہوں، اب اگر میں چھالیہ رکھتا ہوں تو پولیس والے میرے سے ہفتہ کے چھ ساتھ ہزار  روپےلیتے ہے،  اور اگر چھالیہ نہیں رکھتا ہوں تو گاہک میرے سے سامان نہیں لیتے ہیں، تو اگر میں اس بنا پر پولیس کو پیسے دیتا ہوں تو آیا یہ پیسے دینا میرے لیے حرام ہے یا حلال؟ اور چھالیہ اگرچہ نقصان دہ چیز ہے جس سے پان گٹھکا ماوا وغیرہ سب بنتا ہے اس صورت میں میرا یہ کام کرنا حلال ہے کہ حرام؟ مکمل تفصیل بتائیں ۔

جواب

واضح رہے کہ رشوت  لینے  اور  دینے  والے  پر    رسولِ اکرم  ﷺ   نے  لعنت  فرمائی ہے، چناں چہ رشوت لینا اور دینا دونوں ناجائز ہیں،  اس  لیے حتی  الامکان  رشوت  دینے  سے  بچنا   واجب ہے، البتہ اگر کوئی  جائز  کام تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرنے اور حق ثابت ہونےکے باوجود صرف رشوت نہ دینے کی وجہ سے  نہ ہورہا ہو تو ایسی صورت میں حق دار  شخص کو چاہیے  اولاً وہ اپنی پوری کوشش کرے کہ رشوت دیے  بغیر کسی طرح (مثلاً حکامِ بالا کے علم میں لاکر یا متعلقہ ادارے میں کوئی واقفیت نکال کر)   اس کا کام ہوجائے،اور جب تک کام نہ ہو  اس وقت تک صبر کرے اور صلاۃ الحاجت پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مسئلہ حل ہونے کی دعا مانگتا رہے، لیکن اگر شدید ضرورت ہو اور  کوئی دوسرا متبادل راستہ نہ ہو تو   جائز حق کی وصولی کے  لیے مجبوراً  رشوت دینے کی صورت میں  دینے والا گناہ گار نہ ہوگا، البتہ رشوت لینے والے شخص کے حق میں رشوت کی وہ رقم ناجائز ہی رہے گی اور اسے اس رشوت لینے کا سخت گناہ ملے گا۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ جو حق ابھی تک ثابت نہ ہو رشوت دے کر اس حق کو حاصل کرنا  شرعاً درست نہیں ہے۔ 

چھالیہ کی خریدوفروخت جائز ہے لہذا اگر وقعۃً چھالیہ کے بغیر لوگ آپ سے سامان نہیں لیتے  ،  اور اس کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے باوجود رشوت دینی پڑتی ہےاور  رشوت کے بغیر یہ کام نہیں ہوتا  تو مجبورًا رشوت دی جا سکتی ہے ،اور اس پر توبہ و استغفار بھی کیا جائے، امید ہے کہ مؤاخذہ نہ ہو گا۔

سنن ابی داود میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو، قال: لعن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - الراشي والمرتشي."

(أول كتاب الأقضية،باب في كراهية ‌الرشوة،٤٣٣/٥،ط: دار الرسالة العالمية)

مرقاة المفاتیح میں ہے:

"(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهي الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة؛ لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه."

(کتاب الأمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهدایاهم، الفصل الثاني،۷ /۲۹۵ ، ط: دارالکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسه و ماله و لإستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع اهـ."

( کتاب الحظر والإباحة ، فصل في البیع، ٤٢٣/٦ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"قوله إذا خاف على دينه) عبارة المجتبى لمن يخاف، وفيه أيضا ‌دفع ‌المال ‌للسلطان الجائر لدفع الظلم."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة،يكره إعطاء سائل المسجد إلا إذا لم يتخط رقاب الناس،٤٢٣/٦،ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100112

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں