بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جائز اور ناجائز تعویذ


سوال

کون سے تعویذ جائز ہیں؟ اور نظر اور سحر کے لیے کسی سے قرآن کی تلاوت سے علاج کروانا ٹھیک عمل ہے؟

جواب

عملیات اور تعویذات  بھی دیگر  علاج ومعالجہ کی طرح  علاج کی ایک قسم ہے،  تعویذات اور عملیات کے ذریعے علاج کرنا  اور کروانا  اور تعویذ استعمال کرنا چند شرائط کے ساتھ جائز ہے: 

(۱)  ان کا معنی  ومفہوم معلوم ہو،  (۲) ان میں  کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو، (۳)  ان کے مؤثر بالذات ہونے   کا اعتقاد نہ ہو ،  (۴)  عملیات کرنے ولا علاج سے واقف اور  ماہر ہو، فریب نہ کرتا ہو۔ (۴) کسی بھی غیر شرعی امر کا ارتکاب نہ کرنا پڑے، مثلاً: اجنبیہ عورتوں سے اختلاط و بے پردگی وغیرہ۔

روایت میں آتا ہے کہ حضرت عبد اللہ  بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما، "اللہ  تعالی کی قدرت وکبریائی پر مشتمل کلماتِ تعوذ اپنے سمجھ دار بچوں کو یاد کراتے تھے اور جو بچہ سمجھ دار نہ ہوتا تھا اُس کے گلے میں وہ کلمات لکھ کرتعویذ کی شکل میں ڈال دیتے تھے"۔

یہی تعویذ کی حقیقت  ہے۔ اُن کے اِس عمل سے یہ معلوم ہوا کہ  اللہ تعالیٰ کی عظمت پر مشتمل  کلمات  کا تعویذ میں استعمال جائز ہے۔ البتہ جو افراد مسنون دعائیں اور حفاظت کے اوراد وغیرہ خود پڑھ سکتے ہوں ان کے لیے بہتر یہ ہے کہ تعویذ کے بجائے وہ خود پڑھنے کا اہتمام کریں۔

باقی حدیث میں جن تعویذ کے استعمال کرنے کی ممانعت آئی ہے اس سے مراد وہ تعویذ ہیں جن میں شرکیہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہوں یا  اس کے مؤثر بالذات ہونے کا عقیدہ رکھاجاتا ہو یا کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم منتر اس میں ہوں۔

         حاصل یہ ہے کہ ایسے تعویذ اور عملیات جو آیاتِ قرآنیہ، ادعیہ ماثورہ یا کلمات صحیحہ پر مشتمل ہوں  ان کو لکھنا،  استعمال کرنا اور ان سے علاج کرنا شرعاً درست ہے، اور جن تعویذوں میں کلماتِ  شرکیہ یا  کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منتر  لکھے جائیں یا ا نہیں مؤثرِ حقیقی  سمجھا جائے ان کا استعمال   شرعاً جائز نہیں ہے؛ لہذا  نظر اور سحر کا علاج قرآنی آیات کی تلاوت سے کروانا جائز ہے۔

مصنف ابن أبي شيبة میں ہے:

"عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا فزع أحدكم في نومه فليقل: «بسم الله، أعوذ بكلمات الله التامات من غضبه وسوء عقابه، ومن شر عباده، ومن شر الشياطين وأن يحضرون». فكان عبد الله يعلمها ولده من أدرك منهم، ومن لم يدرك كتبها وعلقها عليه". (5/ 44)

فتاوی شامی میں ہے:

"[فرع] في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير العربية.

(قوله: التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن، وقيل: هي الخرزة التي تعلقها الجاهلية اهـ فلتراجع نسخة أخرى. وفي المغرب: وبعضهم يتوهم أن المعاذات هي التمائم، وليس كذلك! إنما التميمة الخرزة، ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال: رقاه الراقي رقياً ورقيةً: إذا عوذه ونفث في عوذته، قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو، ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من  الدعوات فلا بأس به اهـ قال الزيلعي: ثم الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس: وهي خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه، وذكر في حدود الإيمان أنه كفر اهـ. وفي الشلبي عن ابن الأثير: التمائم جمع تميمة، وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم يتقون بها العين في زعمهم، فأبطلها الإسلام، والحديث الآخر: «من علق تميمة فلا أتم الله له»؛ لأنهم يعتقدون أنه تمام الدواء والشفاء، بل جعلوها شركاء؛ لأنهم أرادوا بها دفع المقادير المكتوبة عليهم وطلبوا دفع الأذى من غير الله تعالى الذي هو دافعه اهـ ط وفي المجتبى: اختلف في الاستشفاء بالقرآن بأن يقرأ على المريض أو الملدوغ الفاتحة، أو يكتب في ورق ويعلق عليه أو في طست ويغسل ويسقى.وعن «النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يعوذ نفسه». قال - رضي الله عنه -: وعلى الجواز عمل الناس اليوم، وبه وردت الآثار".

(6 / 363، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144112201179

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں