میرے والد صاحب کا انتقال 1995 ء میں ہوا ، سرکاری ملازم تھے، جب کہ دادی اماں کا 2003 ء میں انتقال ہوا، 2012 ء میں والد صاحب کی وراثت (ایک مکان مالیت 38 لاکھ اور ایک پلاٹ 26 لاکھ ، ٹوٹل 64 لاکھ) تقسیم کے وقت لاعلمی میں دادی اماں کا حصہ نہیں نکالا. وارثین میں والدہ، بیوہ ، ایک بیٹا اور چار بیٹیاں ہیں ، جب کہ دادی اماں کے تین بیٹے ( ایک میرے والد ) اور تین بیٹیاں ( ایک دادی کی وفات سے قبل وفات پا گئیں تھیں ) ہیں ۔
سوال نمبر 1۔ والد صاحب کی پنشن کے وقت دادی جان اپنے حصے سے دستبردار ہو گئیں تھیں، کیا یہی فارمولا وراثت میں بھی استعمال ہو سکتا ہے؟
سوال نمبر 2۔ میرے والد صاحب اور دادی اماں کی جائیداد کی شرعی تقسیم کیا ہے؟
سوال نمبر 3۔ میری والدہ محترمہ بھی سرکاری ملازم تھیں اور وہ کہتی ہیں کہ پلاٹ اور گھر بنواتے وقت میری تنخواہ بھی اسی میں خرچ ہوئی،اس لیے والد صاحب کے ترکے میں آدھا حصہ میرا ہے، اس حوالے سے شرعی حکم کیا ہے ؟
سوال نمبر 4۔والد صاحب اپنی زندگی میں کہا کرتے تھے کہ گھر میرے بیٹے کا ہے ، جب کہ پلاٹ میری بیٹیوں کا ہے اور اسی وصیت پر عمل ہوا، کیا یہ درست تھا؟ اگر نہیں تو اب اس حوالے سے کیا ہو سکتا ہے؟
1۔ پنشن میراث میں تقسیم نہیں ہوتی، بلکہ یہ ادارے کی جانب سے عطیہ ہوتا ہے، جس کے نام جاری ہو وہ اس کا مالک ہوتا ہے، لہذا اگر پنشن دادی کے نام جاری نہیں ہوئی تھی تو سائل کی دادی اس کی مالکہ نہیں تھی، لہذا دستبرداری کا تصور نہیں تھا، بلکہ پنشن کی وہ رقم اس شخص کو دینا ضروری ہے جس کے نام جاری ہوئی ہے اور اگر پنشن دادی کے نام جاری ہوئی تھی اور اس نے پنشن لینے سے انکار کردیا تھا تو جو پنشن وصول کرکے دادی کی رضامندی سے تقسیم ہو گئی اس میں دادی کا حق باقی نہ رہا، لیکن اس کی وجہ سے میراث میں سےسائل کی دادی کا حق ختم نہیں ہوا۔
2۔ سائل کی دادی اپنے بیٹے (سائل کے والد) کی متروکہ جائیداد میں حق دار تھی، ان کا حصہ ان کی اولاد (سائل کے چچا اور زندہ پھوپھیوں) میں تقسیم ہوگا، لہذا کل جائیداد کے 144 حصے کرکے مرحوم کی بیوہ (سائل کی والدہ) کو 18 حصے (12.50%)، اس کے زندہ بیٹے (سائل ) کو 34 حصے (23.61%) ، اس کی ہر بیٹی کو 17 حصے (11.80%)، اس کے ہر بھائی کو 8 حصے (5.55%) اور ہر زندہ بہن کو 4 حصے (2.77%) ملیں گے۔
سائل کی دادی کی ذاتی جائیداد کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ کل جائیداد کے 6 حصے کرکے ہر زندہ بیٹے کو 2 حصے (33.33٪) اور ہر زندہ بیٹی کو ایک حصہ (16.67٪) ملیں گے۔
2۔ سائل کی والدہ نے سائل کے والد کو پلاٹ اور گھر بنواتے وقت جو رقم دی تھی اس وقت کیا معاہد ہوا تھا؟ وہ رقم بطورِ قرض ، بطورِ شرکت یا بطورِ معاونت کے دی تھی؟ یا کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا؟ یہ جاننے کے بعداس جزء کا جواب دیا جائے گا۔
3۔ تقسیم میں چوں کہ دادی کو حصہ نہیں دیا تھا، لہذا یہ تقسیم ختم کرکے از سرِ نو تقسیم کی جائے گی، سائل کے والد کی وصیت پر عمل کرنا ضروری نہیں تھا، تاہم اگر تمام ورثا (سائل کی والدہ، بہنیں، چچا اور پھوپھیاں) عاقل اور بالغ ہوں اور وہ اپنا حصہ لے کر مرحوم کی اولاد کو دے دیں یا کچھ لے کر بقیہ معاف کردیں تو اس کی گنجائش ہے، فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144107200446
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن