بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جیب خرچ کے پیسوں سے علیحدہ مکان خریدنے کی صورت میں مذکورہ مکان مشترک شمار نہیں ہوگا


سوال

میں اپنے والد صاحب کے ساتھ ان کی دکان پر کام کرتا تھا اور مجھے صرف جیب خرچ ملتا تھا اور اس جیب خرچ سے میں نے کمیٹی ڈالی ،پھر ان کمیٹی کے پیسوں سے میں نے علیحدہ دوکان ڈالی اور  شادی کے بعد میں نے بیوی کا زیور بیچ کر ایک پلاٹ خریدا اور پلاٹ کی کچھ رقم سے میں نے علیحدہ دکان ڈالی تھی اس سے تھوڑا تھوڑا کر کے ادا کرتا رہا اور گھر میں بھی خرچہ جو مجھ سے بن پاتا تھا دیتا رہا ،اب والد محترم کہتے ہیں کہ میں نے جو علیحدہ دکان ڈالی ہے اور پلاٹ خریدا ہے یہ سب گھر والوں میں مشترک ہے، کیا ان کا یہ کہنا صحیح ہے یا یہ دکان اور پلاٹ میری ملکیت ہے؟

جواب

صورت مسؤلہ  میں چونکہ سائل نے   اپنی ذاتی اور مملوکہ رقم  سے دکان ڈالی   ہے اور مذکورہ پلاٹ  بھی اپنی ذاتی رقم  اور اپنی اہلیہ کے زیورات کی رقم سے خریداتھا ،اس لئے مذکورہ دکان اور پلاٹ کےمتعلق سائل کے والد کا یہ مطالبہ کرنا کہ یہ دکان اور پلاٹ سب گھر والوں میں مشترک ہے  شرعادرست نہیں ہے۔بلکہ دکان سائل کی  ہے اور پلاٹ میں چو نکہ سائل اور اس کی بیوی دونوں کی رقم لگی ہوئی ہے اس لئے ان دونوں کے درمیان  جو معاہدہ ہوا ہو اس کے مطابق  پلاٹ کی ملکیت کا حکم لگایا جائے گا ۔

 درر الحكام في شرح مجلة الأحكام"  میں ہے:

"كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير. انظر المادة (1197)."

(کتااب الثانی الاجارۃ3/ 201/دار الجلیل)

مجلة الأحكام العدلية"  میں ہے:

"(المادة 95) : الأمر بالتصرف في ملك الغير باطل.

(المادة 96) : لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه.

(المادة 97) : لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي".

(مجلة الأحكام العدلية (ص: 27) ط:نور محمد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144402100633

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں