بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جے شری رام کا نعرہ لگانے سے کفر کا حکم


سوال

 اگر کسی مسلمان نے نعوذبااللہ "جے شری رام "کا نعرہ لگا دیا ہو تو کیا وہ کافر و مشرک ہوگیا؟ اور اس کا نکاح ٹوٹ گیا ؟اور پھر اس کو کیا کرنا چاہیے؟ وہ اب توبہ کیسے کرے گا؟

جواب

واضح رہے کہ "جے"کامعنی ہے"زندہ باد،یعنی جیتے رہو"اور "شری"کا لفظ ادب کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کا معنی ہے "صاحب،جناب "اور"رام " ہندو مذہب میں ان کامعبود اور بھگوان مانا جاتا ہے،لہذا"جے شری رام "کا معنی ہوا"رام بھگوان جی جیتے رہیں" اور یہ نعرہ ہندوؤں کا ایک مذہبی نعرہ اور مذہبی شعار ہے،جیسے  مسلمان اللہ رب العزت کو پکارنے کے  لیے "یا اللہ"کہتے ہیں ،ایسے ہندواپنے بھگوان کو پکارنے کے لیے یہ نعرہ لگاتے ہیں۔

لہذا اگر کوئی مسلمان بغیر کسی مجبوری اوربغیر کسی زبردستی کے اپنے اختیار سےیہ نعرہ لگائے گاتو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا اور اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا،اس پر توبہ واستغفار کے بعد تجدیدِ ایمان کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرنا لازم ہوگا۔

البتہ اگر کسی مسلمان کو یہ نعرہ لگانے پر مجبور کیا جائے،اس پر زبردستی کی جائےاور وہ واقعی مجبور بھی ہو، یعنی اس کواس بات کی دھمکی دی جائے کہ اگر وہ یہ نعرہ نہیں لگائے گا تو اس کو قتل کردیا جائے گا یا اس کے کسی عضو کوضائع کردیا جائے گا یا پھر اس کو ایسی مارکی دھمکی دی جائے جس کی وجہ سےاس کی جان جانے یا کسی عضو کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہو اور جس شخص کو دھمکی دی جارہی ہواس کا غالب گمان یہ ہو کہ اگر میں دھمکی دینے والے کی بات نہ مانوں گاتو جس چیز کی وہ دھکمی دے رہا ہےوہ اس کو ضرور کر ڈالے گاتو ایسی مجبوری کی حالت میں صرف ظاہری طور پرزبان سے یہ نعرہ لگانے کی اجازت ہوگی،دل ایمان پر ہی مطمئن رہنا چاہیے،لیکن اگر کسی نے اس طرح کی مجبوری میں بھی یہ نعرہ نہیں لگایا اور اس کو قتل کردیا گیا،تو اس کو زیادہ ثواب اور شہادت کا اجر ملے گا۔

قرآن مجید میں ہے:

"مَنْ ‌كَفَرَ ‌بِاللَّهِ ‌مِنْ ‌بَعْدِ إِيمانِهِ إِلَاّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمانِ وَلكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْراً فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذابٌ عَظِيمٌ."(سورة النحل،آية:106)

ترجمہ:"جو شخص ایمان لائےپیچھے اللہ کےساتھ کفر کرے،مگر جس شخص پر زبردستی کی جاوے،بشرطیکہ اس کاقلب ایمان پر مطمئن ہو،لیکن ہاں!جو جی کھول کر کفر کرے،تو ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوگا اور ان کو بڑی سزاہوگی۔(بیان القرآن از مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ؒ)"

التفسیر المظہری میں مذکورہ آیت کے تحت ہے:

"اعلم ان الإكراه عبارة عن حمل الغير على فعل يكرهه وذلك على نوعين أحدهما: ما ينتفى به رضاه ولا يفسد اختياره كالاكراه بالضرب او الحبس ثانيهما: ما يكون ملجيا يفسد اختياره كالاكراه بالقتل او قطع العضو ويشترط فى كلا القسمين من الإكراه قدرة المكره على ما يهدد به وان يغلب على ظن المكره انه يفعله به فالقسم الأول من الإكراه غير مراد بالآية وغير مؤثر أصلا....والمراد بالآية هو القسم الثاني فقد أجمع العلماء على انه من أكره على الكفر إكراها ملجيا يجوز له ان يتلفظ بما أكره عليه مطمئنّا قلبه بالايمان بهذه الآية."

(ألتفسير المظهري، تفسير سورة النحل، آية:106، ج:5، ص:377، ط:ألمكتبة الرشيدية باكستان)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"يكفر بوضع قلنسوة المجوس على رأسه على الصحيح إلا لضرورة دفع الحر والبرد وبشد الزنار في وسطه إلا إذا فعل ذلك خديعة في الحرب."

(كتاب السير، الباب التاسع، ج:2، ص:276، ط:رشيديه)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان أنواع الإكراه فنقول: إنه نوعان: نوع يوجب الإلجاء والاضطرار طبعا كالقتل والقطع والضرب الذي يخاف فيه تلف النفس أو العضو قل الضرب أو كثر...وهذا النوع يسمى إكراها تاما."

(كتاب الإكراه، فصل في بيان إنواع الإكراه، ج:7، ص:175، ط:سعيد)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال:کسی ہندوکو"رام رام"کرنےیا لینے سے کفر عائد ہوجاتا ہے؟یا"جے رام"کرنے سے؟

"جواب:اسلامی شعائر"السلام علیکم "ہے،غیر اسلامی شعائر کو اختیار کرنا جائز نہیں ہے،پھر اگر وہ غیر کا شعار ہوتو اس کو اختیار کرنا معصیت ہے،اگر مذہبی شعار ہو تو کفر تک پہنچ جانے کا خطرہ ہے۔"

(ج:19،ص:96،ط:زیر نگرانی دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

وفیہ ایضاً:

"غیر مسلم کے شعارِ قومی کو اختیار کرناگناہِ کبیرہ ہے اور شعارِ مذہبی کو اختیار کرنا بلاضرورتِ معتبرہ عند الشرع کفر ہے۔"

(ج:19،ص:553،ط:زیر نگرانی دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

کفایت المفتی میں ہے:

"رام رام کہنا سلامِ شرعی کی جگہ گناہ ہےکہ یہ کفار کا شعار ہے۔"

(ج:9،ص:109،ط:دار الاشاعت)

وفیہ ایضاً:

"ہاں!اضطرار کی حالت میں زبان سے کلمہ کفر وشرک کہہ دینے کی رخصت ہے،دل مطمئن بالایمان رہے،صرف زبان سے کلمہ کفر وشرک ادا کردیا جائے تو متلفظ کافر نہیں ہوتا اور نہ کہے اور مارا جائے تو یہ عزیمت ہے اور اس میں زیادہ ثواب اور شہادت کا اجر ہے۔"

(ج:2،ص:229،ط:دار الاشاعت)

فیروزاللغات میں ہے:

"(جے):زندہ باد۔(شری):جناب ،صاحب۔"

(ص:540،841،ط:فیروز سنز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101804

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں