بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جہیز لڑکی کی ملکیت ہے۔


سوال

ایک شخص کی چند سال قبل شادی ہوئی۔ اولاد نصیب میں نہ تھی۔ گزشتہ دنوں وہ شخص لاولد فوت ہوگیا۔ وضاحت مطلوب ہے کہ شادی کے موقع پر لڑکی جو جہیز کا سامان لائی تھی وہ مکمل لڑکی واپس اپنے والدین کے پاس لے کر جائے گی؟ شادی کے موقع پر لڑکے کی طرف سے 5 تولہ سونا لڑکی کو دیا گیا وہ تو ترکہ میں شامل نہیں ہوگا؟ شادی کے بعد گھر کا سامان فریج اے سی وغیرہ جو مرحوم نے اپنی کمائی سے خریدے تھے وہ بیوہ کے ہیں یا ورثاء میں تقسیم ہوں گے؟ مرحوم نے اپنے چھوٹے بھائی کو ایک کار لے کردی تھی کہ تم چلاؤ اور اپنی گزر بسر کرو۔یہ گاڑی بطور ترکہ تقسیم ہوگی ؟

جواب

1:جہیز کا جو سامان لڑکی لائی تھی، اس سامان کی مالک لڑکی ہے، یہ سامان مرحوم شوہر کا ترکہ شمار نہیں ہوگا۔اور شادی کے موقع پر جو سونا لڑکی کو دیا گیا، تو  وہ سونا بھی لڑکی کی ملکیت ہے، البتہ اگر  شوہر نے سونا دیتے وقت یہ صراحت کی تھی کہ  یہ سونا استعمال کے لئے دے رہا ہوں تو پھر یہ سونا  مرحوم شوہر کا ترکہ شمار ہوگا۔

2:مرحوم نے اپنی کمائی سے گھر کا جو سامان  فریج  اور اے سی وغیرہ  خریدے تھے، وہ مرحوم کا ترکہ ہیں ، جو ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کرنا ضروری ہے۔

3:مرحوم نے اپنے چھوٹے بھائی کو جو کار لے کر دی تھی، اگر بھائی کو ہبہ (گفٹ) کی تھی  کہ یہ کار آپ کی ہے آپ اس کو چلا کر اپنی گزربسر کرور تو وہ کار  چھوٹے بھائی کی ملکیت ہے، ترکہ شمار نہیں ہوگا، اور اگر ہبہ نہیں کی تھی ، بلکہ صرف عاریت کے طور پر چلانے  اور گزربسر  کی خاطر دی تھی تو پھر  مذکورہ گاڑی مرحوم کا ترکہ شمار ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

لَوْ جَهَّزَ ابْنَتَهُ وَسَلَّمَهُ إلَيْهَا لَيْسَ لَهُ فِي الِاسْتِحْسَانِ اسْتِرْدَادٌ مِنْهَا وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى.....وَإِذَا بَعَثَ الزَّوْجُ إلَى أَهْلِ زَوْجَتِهِ أَشْيَاءَ عِنْدَ زِفَافِهَا مِنْهَا دِيبَاجٌ فَلَمَّا زُفَّتْ إلَيْهِ أَرَادَ أَنْ يَسْتَرِدَّ مِنْ الْمَرْأَةِ الدِّيبَاجَ لَيْسَ لَهُ ذَلِكَ إذَا بَعَثَ إلَيْهَا عَلَى جِهَةِ التَّمْلِيكِ ، كَذَا فِي الْفُصُولِ الْعِمَادِيَّةِ .

(الفصل السادس عشر في جهاز البنت/ج:١/ص:٣٢٧/ط:ماجدية.)

سراجی میں  ہے:

قال علماءناؒ:تتعلق بترکةالمیت حقوق اربعة مرتبة:الاول یبدء بتکفينه...... ثم تقضی دیونه  من جمیع ما بقی من ماله.... ثم یقسم الباقی بین ورثته بالکتاب والسنة واجماع الامة۔

(ص:١٣/ط:بشري.)

مبسوط میں ہے:

أن الهبة لا تتم إلا بالقبض۔

(كتاب الهبة /ج:١٤/ص:٢٨٧/ط:بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200460

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں