بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جہیز کے سامان کس کی ملکیت ہے اور میاں بیوی کا مشترکہ کاروبارمیں پیسہ لگانے کا حکم


سوال

میری بیوی کاانتقال ہوا،انتقال سےپہلےہم(میاں بیوی)نےیہ طےکیاتھاکہ زیورات کوبیچ کرکچھ مزیدرقم ملاکراس سےکوئی کاروبارشروع کرلے،مگرسارےپیسےعلاج ومعالجہ میں خرچ ہوگئے،اوربیوی انتقال کرگئی(میری اس سےکوئی اولادنہیں ہے)،اوربیوی کی ماں جہیزکاسامان اورزیورات طلب کررہی ہے،جہیزکاسامان(یعنی باہمی رضامندی سےہم نےیہ طےکیاکہ سامان کےبقدرپیسےدےدیاجائے)میں نےاداکردیا،اب پوچھنایہ ہےکہ میری بیوی کی ذاتی زیورات(جوہم نےباہمی رضامندی سےکاروبارکےلئےمختص کیاتھااورمیں نےبھی اس میں رقم شامل کی تھی)کامستحق کون ہے؟جوبیوی کی ماں اس کواپنےلیےطلب کررہی ہے،تواس کاکیاحکم ہے؟اورجہیزکےسامان کاکیاحکم ہےجبکہ میں ان کےکہنےپررقم دےچکاہوں۔

وضاحت:(1)۔ رقم دیتےہوئےبیوی نےیہ بھی کہاتھاکہ"اب آپ اس رقم سےکاروبارشروع کریں،بعدمیں پھرجب گنجائش ہوتوزیورات بنائیں گے۔

(2)۔ بیوی کازیور(1.5)تولہ اورمیرازیور(2)تولہ اوربیوی کی زندگی میں ان دونوں کوملاکر(300000)روپےکافروخت کیا،بیوی کی رضامندی سےاوریہ طےکیاکہ اس کوکاروبارمیں لگائیں گے،اورجب کمائی ہوجائےگی توشوہراسی طرح کےزیورات بناکردےدےگا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں بیوی کےانتقال کےبعداس کاکل سامان بشمول جہیزاورنقدی کےاس کاترکہ شمارہوگا،اورتمام ورثاءمیں ان کےشرعی حصوں کےمطابق تقسیم کیاجائےگا،سائل اولادنہ ہونےکی وجہ سےکل ترکہ  کےپچاس فیصدکاحق دارہے،بقیہ پچاس فیصدبیوی مرحومہ کی والدہ اوراگروالدموجودہیں توان میں تقسیم ہوگا،والدنہ ہوں توبھائی بہن حق دارہوں گے،ورثاءکی مکمل تفصیل لکھ کر دارالافتاء سے دوبارہ معلوم کرلیاجائے۔

2۔جہیزکےسامان کےبدلےسائل باہمی رضامندی سےرقم اداکرچکاہےتواب یہ سامان سائل کی ملکیت شمارہوگی،رقم دینےکےبعدسامان تقسیم کرناضروری نہیں۔

3۔جوزیورات بیوی نےشوہرکوکاروبارکےلیےاس صراحت کےساتھ دئےتھےکہ بعدمیں اتنےزیورات بنادینا یہ زیورات سائل کےذمہ قرض ہے،لہٰذابیوی کےانتقال کےبعدشوہرپرلازم ہےکہ بیوی کالگایاہوازیوراس کےترکہ میں شامل کرے،اوردیگرترکہ کی طرح یہ زیوربھی ورثاءمیں ان کےشرعی حصوں کےمطابق تقسیم کیاجائےگا

فتاوی شامی میں ہے:

"فإن كل أحد يعلم أن الجهاز ملك المرأة وأنه إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها."

(ردالمحتار،مطلب فيما لوزفت اليه بلاجهاز،ج:3/ص:585 ط:سعيد)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"لو جهز ابنته وسلمه إليها ليس له في الاستحسان استرداد منها وعليه الفتوی ۔۔۔۔۔۔وإذا ‌بعث ‌الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية."

(الباب السابع في المهر وفيه سبعة عشر فصلا،الفصل السادس عشر في جهاز البنت،ج:1/ص:327 ط:سعيد)

فقط الله اعلم


فتوی نمبر : 144308100597

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں