بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جہیز کی شرعی حیثیت/نکاح کے تقریب میں شرکت کرنا


سوال

 1:شریعت میں جہیز کی کیا ممانعت بتائی گئی ہے ؟

2:آج کے زمانے میں اگر لڑکے والے سامان جہیز کا مطالبہ نہ بھی کریں تب بھی لڑکی والے زبردستی لڑکے کو کچھ نہ کچھ یعنی سونے کی چین یا انگوٹھی یا کار یا موٹر گاڑی یا زمین اور جائیداد وغیرہ دے ہی دیتے ہیں ،تاکہ آئندہ کبھی بھی ہماری بیٹی کو لڑکے والوں کی طرف سے تکلیف یا کوئی پریشانی نہ ہوسکے تو کیا یہ سب سامان جہیز ہی میں شامل ہوگا ؟ اگر نہیں تو اس کا کیا حکم ہے ؟

3: نکاح سے پہلے لڑکی کی طرف سے لڑکے والوں کو جو سونے کی چین یا سونے کا سکّہ یا رقم وغیرہ دی جاتی ہے اسے بطور ِمہر استعمال کرنا کیسا ہے؟

4:نکاح کی تقریب میں شرکت کرنا کیسا ہے؟ اور نکاح کی دعوت لڑکی والوں کی طرف سے ہوتی ہے تو کیا ایسی دعوت میں شریک ہونا صحیح ہے؟اگر نکاح کی دعوت جس میں آدھی رقم لڑکی والوں کی ہو اور آدھی رقم لڑکے والوں کی ہوتو ایسی دعوت میں شریک ہونا کیسا ہے؟ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل و مفصل جواب مرحمت فرمائیں، عین نوازش ہوگی ۔

جواب

1: ’’جہیز‘‘  ان تحائف اور سامان کا نام ہے جو والدین اپنی بچی کو رخصت کرتے ہوئے دیتے ہیں،اگروالدین اپنی رضا و خوشی سے اپنی بیٹی کو رخصتی کے موقع پر کچھ دینا چاہے تو یہ شرعی طور پر ممنوع بھی نہیں، بلکہ یہ رحمت اور محبت کی علامت ہے، ایسی صورت میں بچی کے لیے جہیز لینا جائز ہے، اور بچی ہی جہیز کے سامان کی مالک ہوگی۔

2، 3: نکاح سے پہلے لڑکی کی طرف سے لڑکے والوں کو جو سونے کی چین یا سونے کا سکّہ یا رقم وغیرہ دی جاتی ہے، یہ بطورِ ہبہ  اور گفٹ کے دی جاتی ہے ،اور ہبہ قبضے سے تام ہو جاتا ہے،اب وہ اس کی ملکیت ہے،سونے کی چین کا مرد کے لیے پہننا جائز نہیں ،البتہ اگرشوہر اس چین یا سکّہ کو  بطور ِمہر استعمال کرے تو یہ درست ہے۔

3:واضح رہے کہ ایسی تقریبات جو فی نفسہ تو جائز ہوں، لیکن ان میں غیر شرعی امور (مثلاً مخلوط اجتماع، بے پردگی، موسیقی وغیرہ ) کا ارتکاب کیا جارہا ہو ان میں شرکت کا حکم یہ ہے کہ اگر پہلے سے یہ بات معلوم ہو کہ تقریب میں غیر شرعی امور کا ارتکاب ہوگا تو اس تقریب میں شرکت کے لیے نہیں جانا چاہیے، البتہ اگر مدعو شخص کوئی عالم و مقتدا ہو اور اسے امید ہو کہ وہ اس تقریب میں جاکر معصیت کے ارتکاب کو روک سکتا ہے تو اسے جانا چاہیے؛ تاکہ اس کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی گناہ سے بچ جائیں۔

نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے کھانے کا انتظام کرنا  ولیمہ کی طرح سنت نہیں  ہے، تاہم اگر کوئی نمود ونمائش سے بچتے ہوئے،  کسی قسم کے زبردستی اور خاندانی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی ورضا  سے اپنے اعزاء اور مہمانوں کوکھانا کھلائے تو  یہ مہمانوں کا اکرام ہے، اور اس طرح کی دعوت کا کھانا کھانا  جائز ہے، اور اگر  لڑکی والے   خوشی سے نہ کھلائیں تو زبردستی کرکے کھانا کھانا جائز نہیں ہوگا،اور اسی طرح اگر  آدھی رقم لڑکی والوں کی ہو اور آدھی رقم لڑکے والوں کی ہو،اور دونوں نے اپنی خوشی سے ایسا کیا ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے،ایسی دعوت میں شریک ہونا درست ہے۔

الموسوعة الفقهية میں ہے:

"الجهاز بالفتح، و الكسر لغة قليلة، و هو اسم … لما تزف به المرأة إلى زوجها من متاع ...ذهب جمهور الفقهاء إلى أنه لايجب على المرأة أن تتجهز بمهرها أو بشيء منه، و على الزوج أن يعد لها المنزل بكل ما يحتاج إليه ليكون سكنًا شرعيًّا لائقًا بهما. و إذا تجهزت بنفسها أو جهزها ذووها فالجهاز ملك لها خاص بها."

(‌‌جهاز، ج: 16، ص: 166،165 ط:  دار السلاسل)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(کتاب الھبة، ج:5، ص:690، ط : سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌رجل ‌دعي ‌إلى ‌وليمة أو طعام وهناك لعب أو غناء جملة الكلام فيه أن هذا في الأصل لا يخلو من أحد وجهين إما أن يكون عالما أن هناك ذاك وإما إن لم يكن عالما به فإن كان عالما فإن كان من غالب رأيه أنه يمكنه التغيير يجيب لأن إجابة الدعوى مسنونة."

(كتاب الاستحسان، ج:5، ص:128، ط: دار الكتب العلمية)

صحیح بخاری میں ہے:

"وقال أنس: «إذا دخلت على مسلم لا يتهم، فكل من طعامه واشرب من شرابه»".

(کتاب الأطعمة، باب  الرجل يدعى إلى طعام ، ج:5، ص:2079، ط: دار ابن كثير)

کفایت المفتی میں ہے:

"لڑکی والوں کی طرف سے براتیوں کو یا برادری کو کھانا دینا لازم یا مسنون اور مستحب نہیں ہے ، اگر  بغیرالتزام کے وہ اپنی مرضی سے کھانا دے دیں تو مباح ہے، نہ دیں تو کوئی الزام نہیں" ۔

( باب العرس والولیمہ،  ج:7، ص:471، ط: فاروقیہ)

فقط واللہ  اعلم


فتوی نمبر : 144412100738

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں