بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جہاز میں جمعہ کا حکم


سوال

کووڈ ۱۹ کی وجہ سے جہاز پر جمعہ شروع ہوا تھا۔ اب (بحری جہاز) پانی کے جہاز پر جمعہ کی جماعت کرانا کیسا ہے؟ جبکہ جہاز کنارے (بندر گاہ) کے ساتھ کھڑا ہوا ہو اور اس جہاز کے ساتھ دیگر جہاز بھی کھڑے ہوں، بعض اوقات جس جہاز پر جمعہ ہونا ہو وہ دوسرے جہاز سے باندھا ہوا ہو بالکل ہی کنارے پر نا ہو۔ ساتھ کے تمام جہازوں سے نمازیوں کے آنے کی اجازت ہو اور جہاز کے قریب جو مسجد اور مصلی جمعہ ہے اس میں جگہ مکمل بھر جاتی ہو یاد رہے دیگر مساجد کم از کم تین چار کلومیٹر پر ہوں اور لازمی نہیں کہ ان تک پہنچنے کے لیے کوئی سواری بروقت  دستیاب ہو۔

مزید یہ کہ جہاز کے عملہ میں بعض حضرات ایسے بھی ہوں جو تین تین ماہ جہاز ہی پر رہتے ہیں اور صرف سیر تفریح کی خاطر باہر جاتے ہیں ۔ جہاز پر اتنی جگہ موجود ہے جس پر ایک سو سے ڈیڑھ سو افراد آرام سے نماز ادا کرسکتے ہیں۔ نیز جہاز جب سمندر میں ہو تو اس پر  جمعہ نہ ہوتا ہو البتہ پنج وقتہ نمازیں انفرادی یا اجتماعی ادا  کی جاتی ہوں۔

جواب

جواب سے قبل تمہید کے طور پر دو باتیں جاننا ضروری ہیں:

۱)  بندرگاہ  اگر شہر سے متصل ہو اس طرح کہ   آبادی کا سلسلہ وہاں تک ممتد ہو یا متصل نہ ہو مگر آبادی والے وہاں کپڑے وغیرہ دھوتے ہوں یا ان کے حوائج بندر گاہ سے متعلق ہوں اس صورت وہ فناء مصر کے حکم میں ہے۔اسی طرح جب کشتی یا جہاز بندرگاہ پر کھڑا ہو اور بندرگاہ فناء شہر یا قریہ ہے تو اس صورت میں کشتی یا جہاز کا بھی وہی حکم ہے جو ساحل بحر کا حکم ہے۔

۲) کنارے پر بندھا ہوا  جہاز اگر مستقر علی الارض ہو (یعنی  جہاز کاکچھ حصہ زمین کے ساتھ متصل ہو) تو اس میں کھڑے ہو کر  نماز جائز ہے۔ اگر جہا زکا کچھ حصہ  زمین سے لگا ہوا نہ ہو  اور اس سے نکل کر زمین پر نماز پڑھنا ممکن ہو تو پھر جہاز پر نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے، ہاں اگر جہازسے نکل کر زمین پر نماز ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہے تو پھر جہاز پر کھڑے ہوکر نماز اد اکی جاسکتی ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں بندر  گاہ کے کنارے کھڑا ہوا جہاز اگر  اس کا کچھ حصہ زمین سے لگا ہوا  ہو تو اس میں جمعہ ادا کرنا جائز ہوگا۔ اگر اس کا کچھ حصہ زمین سے لگا ہوا نہ  ہواور جہاز سے اترنا ممکن ہو تو پھر جمعہ ادا کرنا جائز نہیں ہوگا، البتہ اگر جہاز سے اترنا ممکن نہ ہو تو پھر جمعہ ادا کیا جاسکتا ہے۔ نیز یہ واضح رہے کہ جن صورتوں میں جمعہ ادا کرنا جائز بھی ہو ان صورتوں میں بھی افضل یہی ہے کہ قریبی مسجد میں جاکر جمعہ ادا کیا جائے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا كما حرره ابن الكمال وغيره (لأجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل والمختار للفتوى تقديره بفرسخ ذكره الولوالجي

(قوله كما حرره ابن الكمال) حيث قال: واعتبر بعضهم قيد الاتصال، وقد خطأه صاحب الذخيرة قائلا فعلى قول هذا القائل لا تجوز إقامة الجمعة ببخارى في مصلى العيد لأن بين المصلى وبين المصر مزارع ووقعت هذه المسألة مرة وأفتى بعض مشايخ زماننا بعدم الجواز ولكن هذا ليس بصواب فإن أحدا لم ينكر جواز صلاة العيد في مصلى العيد ببخارى لا من المتقدمين ولا من المتأخرين، وكما أن المصر أو فناءه شرط جواز الجمعة فهو شرط جواز صلاة العيد. اه

(قوله والمختار للفتوى إلخ) اعلم أن بعض المحققين أهل الترجيح أطلق الفناء عن تقديره بمسافة وكذا محرر المذهب الإمام محمد وبعضهم قدره بها وجملة أقوالهم في تقديره ثمانية أقوال أو تسعة غلوة ميل ميلان ثلاثة فرسخ فرسخان ثلاثة سماع الصوت سماع الأذان والتعريف أحسن من التحديد لأنه لا يوجد ذلك في كل مصر وإنما هو بحسب كبر المصر وصغره. بيانه أن التقدير بغلوة أو ميل لا يصح في مثل مصر لأن القرافة والترب التي تلي باب النصر يزيد كل منهما على فرسخ من كل جانب، نعم هو ممكن لمثل بولاق فالقول بالتحديد بمسافة يخالف التعريف المتفق على ما صدق عليه بأنه المعد لمصالح المصر فقد نص الأئمة على أن الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المصر كركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك وأي موضع يحد بمسافة يسع عساكر مصر ويصلح ميدانا للخيل والفرسان ورمي النبل والبندق البارود واختبار المدافع وهذا يزيد على فراسخ فظهر أن التحديد بحسب الأمصار اهــ"

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، ج نمبر ۲، ص نمبر  ۱۳۸، ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(صلى الفرض في فلك) جار (قاعدا بلا عذر صح) لغلبة العجز (وأساء) وقالا: لا يصح إلا بعذر وهو الأظهر برهان (والمربوطة في الشط كالشط) في الأصح (والمربوطة بلجة البحر إن كان الريح يحركها شديدا فكالسائرة وإلا فكالواقفة)»

(قوله والمربوطة في الشط كالشط) فلا تجوز الصلاة فيها قاعدا اتفاقا.وظاهر ما في الهداية وغيرها الجواز قائما مطلقا أي استقرت على الأرض أو لا، وصرح في الإيضاح بمنعه في الثاني حيث أمكنه الخروج إلحاقا لها بالدابة نهر واختاره في المحيط والبدائع بحر، وعزاه في الإمداد أيضا إلى مجمع الروايات عن المصفى وجزم به في نور الإيضاح، وعلى هذا ينبغي أن لا تجوز الصلاة فيها سائرة مع إمكان الخروج إلى البر وهذه المسألة الناس عنها غافلون شرح المنية."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض ج نمبر ۱، ص نمبر ۱۰۱، ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وفي العتابية ولو كان مسافرا وشرع في الصلاة في السفينة خارج المصر فجرت السفينة حتى دخل المصر يتم أربعا، كذا في التتارخانية."

(کتاب الصلاۃ،باب خامس عشر، ج نمبر ۱، ص نمبر ۱۴۴، دار الفکر)

النہایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"ولا شك أن المصر شرط لجواز هذه الصلوات حتى لا يجوز في القرى، فلما أعطيت هذه المواضع حكم المصر في حق صلاة الجمعة والعيدين، فكيف أعطيت حكم غير المصر في حق القصر للمسافر؟

قلت: لأن فناء المصر إنما يلحق بالمصر فيما كان من حوائج أهل المصر، وصلاة الجمعة، والعيدين من حوائج أهل المصر، فأما قصر الصلاة، فليس من حوائج أهل المصر فلا يلحق الفناء بالمصر في حق هذا الحكم."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج نمبر ۴، ص نمبر ۴۳،وزارۃ التعلیم جامعہ ام القری)

فتاوی شامی میں ہے:

«فإن اتصل ‌بالمصر اعتبر مجاوزته وإن انفصل بغلوة أو مزرعة فلا كما يأتي، بخلاف الجمعة فتصح إقامتها في الفناء ولو منفصلا بمزارع لأن الجمعة من مصالح البلد بخلاف السفر كما حققه الشرنبلالي في رسالته وسيأتي في بابها."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج نمبر۲، ص نمبر ۱۲۱،ایچ ایم سعید)

تحفة أعيان الغني بصحة الجمعة والعيدين في الفنا میں ہے:

"قال الشيخ اكمل الدين في الغاية جواز اقامة الجمعة ليس بمحضر في المصلي بل يجوز في جميع افنية المصر لانها اي الافنية بمنزلة المصر في حميع حوائج اهله و يصدق هذا التعليل تعريف الفنا و هو ما اعد لحوائج اهل المصر."

(ص نمبر  ۴، مخطوط)

امداد الاحکام میں ہے:

"سوال: ما يقول العلماء الكرام و الفضلاء العظام في الصلاة في السفينة هل يجوز مطلقا ام فيه تفصيل بينوا توجروا؟

الجواب: اقول ان هذه المسئلة علي وجوه فنذكر كلها مع احكامه الوجه الاول ان تكون السفينة مربوطة في الشط فان كانت مستقرة علي الارض بحيث اتصل اسفلها بها فالصلاة فيها جائزة قائما لا قاعدا لانها في حكم السرير علي هذا التقدير و الصلاة  علي السرير انما تجوز قائما لا قاعدا فكذا هذا و ان كانت غير مستقرة علي الارض فان امكنه الخروج منها يجب عليه الخروج للصلاة لكونها في حكم الدابة علي هذا التقدير  وان لم يمكن الخروج يصلي فيها قائما لان الصلاة فيها علي هذا التقدير كالصلاة الشط و الصلاة علي الشط لا بد لها من القيام فكذا هذا .......فقد علم بذلك ان ما يفعله كثير من الناس حتي بعض الخواص ايضا من ينتسبون الي العلم انهم يصلون في السفن المربوطة في الشط مع انها غير مستقرة علي الارض و هم قادرون علي الخروج منها و كذا يصلون في السفن الجارية حالة السير و هم يستطيعون الخروج منها غلط عظيم نشأ من عدم تتبع لتب الفقه لا بد لهم ان يخرجوا منها و ان استثقلوا الخروج فعليهم ان يوقفوها في موضع تستقر علي الارض ثم يصلون قائمين فقط والله اعلم بالصواب واليه المرجع و الماب حرره العبد الضعيف فيض الله، الجواب الصحيح عزيز الرحمن مفتي دار العلوم ديوبند، ١٦ شعبان ٤١ه ، الجواب الصحيح محمد اعزاز علي غفر له، الجواب الصحيح ظفر احمد عفاالله عنهاز خانقاہ امدادیہ تھانہ بھونقلت اما اتصال اسفلها بالارض فليس بشرط اتصال طرف منها بها يكفي كما يظهر من نور الايضاح و حاشية للطحطاوي و نصه فان صلي في المربوطة بالشط قائما و كان شيئ من السفينة علي قراب الارض صحت الصلاة بمنزلة الصلاة علي السرير ، فقوله شيئ من السفينة يعمل الاسفل و المقدم و غيرهما سواء كان قليلا او كثيرا هذا والله اعلم."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج نمبر ۱، ص نمبر  ۷۱۳، مکتبہ دار العلوم کراچی)

امداد الاحکام میں ہے:

"جواب اول: بندر جب متصل شہر و قریہ کے ہو ، اس طرح کے آبادی کا سلسلہ وہاں تک ممتد ہو یا متصل نہ مگر آبادی والے وہاں کپڑے وغیرہ دھوتے ہوں یا ان کے حوائج بندر سے متعلق ہوں اس صورت میں وہ بحکم فناء مصر و فناء قریۃ کے ہے اور فناء مصر و فناء قریہ کا حکم وہی ہے جو خود مصر و قریہ کا حکم ہے، اس لیے وہاں اقامت کی نیت درست ہوگی۔۔۔۔ غرض فناء کے لیے اتصال آباد بھی شرط نہیں، بلکہ اس کے متعلقات بلد و جبانہ مصر ہونا کافی ہے، اس طرح قریہ کے متصلات میں شمار ہونا بس ہے،اور یقینا جب فناء بحکم مصر وقریہ ہے تو ان کی طرح یہ بھی ضرور صالح للاقامت ہوگا کیونکہ جمعہ اسی موضع میں جائز ہے جو صالح للاقامت ہو، مفازہ و بریہ میں اتفاقا جمعہ صحیح نہیں ہے، باقی جواز قصر کے لیے مجاوزت فناء کا شرط نہ ہونا دوسری وجہ سے ہے ۔۔۔۔۔۔ جواب شق دوم: جب کشتی یا جہاز بندر پر کھڑا ہو اور بندر فناء شہر یا قریہ ہے تو اس صورت میں کشتی یا جہاز کا بھی وہی حکم ہے جو ساحل بحر کا حکم ہے جس طرح ساحل بحر موضع صالح للاقامۃ ہے اس طرح کشتی یا جہاز واقف و مشدود بالساحل بھی صالح للاقامۃ ہے۔۔۔۔۔۔ الغرض سفینہ کی چار حالتیں ہیں واقف علی الشط، واقف فی لجۃ البحر، سائر بقرب الشط ، سائر فی لجۃ البحر (یعنی بعید عن الشط)۔ پس واقف علی الشط بحکم شط ہے اور جب شط صالح للاقامۃ ہو تو سفینہ بھی صالح للاقامۃ ہے اور واقف فی لجۃ البحر بحکم بحر ہے وہ صالح لنیۃ الاقامۃ الخ۔"

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ج نمبر ۱، ص نمبر  ۷۰۸تا ۷۱۰، مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101222

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں