بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جہیز میں ملے ہوئے پلاٹ پر زکات کے وجوب کا حکم


سوال

جہیز میں جو پلاٹ ملا ہے اس پر زکات ہوگی یا نہیں؟ جب کہ اس کے بارے میں ارادہ یہ ہے کہ اس  پلاٹ پر گھر بناکر کرائے پر دے دیں گے!


جواب

زکات صرف مالِ نامی (جیسے سونا، چاندی، نقدی اور مالِ  تجارت وغیرہ) پر واجب ہوتی ہے، جب کہ جہیز میں ملا ہوا پلاٹ مالِ نامی (حقیقتاً یا حکماً بڑھنے والا مال یعنی مالِ تجارت)  نہیں ہے، اس  لیے جہیز  میں  ملے ہوئے پلاٹ پر زکات واجب نہیں ہوگی۔

الفتاوى الهندية (1/ 174):

"(ومنها كون النصاب ناميًا) حقيقةً بالتوالد والتناسل والتجارة أو تقديرًا بأن يتمكن من الاستنماء بكون المال في يده أو في يد نائبه، وينقسم كل واحد منهما إلى قسمين: خلقي، وفعلي، هكذا في التبيين. فالخلقي الذهب والفضة؛ لأنهما لايصلحان للانتفاع بأعيانهما في دفع الحوائج الأصلية فتجب الزكاة فيهما نوى التجارة أو لم ينو أصلاً أو نوى النفقة، والفعلي ما سواهما، ويكون الاستنماء فيه بنية التجارة أو الإسامة، ونية التجارة والإسامة لاتعتبر ما لم تتصل بفعل التجارة أو الإسامة، ثم نية التجارة قد تكون صريحًا وقد تكون دلالةً، فالصريح أن ينوي عند عقد التجارة أن يكون المملوك للتجارة سواء كان ذلك العقد شراءً أو إجارةً وسواء كان ذلك الثمن من النقود أو العروض".

  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144211200810

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں