بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جہیز کا حکم


سوال

شادی میں جو جہیز  آیا ہے، اس کے متعلق واضح راہ نمائی فرمادیں، اب کیا کرنا چاہیے؟

جواب

’’جہیز‘‘  ان تحائف اور سامان کا نام ہے جو والدین اپنی بچی کو رخصت کرتے ہوئے دیتے ہیں، اس لیے اگر والدین بغیر جبر و اکراہ اور دباؤ کے اور بغیر نمود ونمائش کے لڑکی کو تحفہ دیتے ہیں تو  یہ رحمت اور محبت کی علامت ہے، ایسی صورت میں بچی کے لیے جہیز لینا جائز ہے، اور بچی ہی جہیز کے سامان کی مالک ہوگی۔

اور اگر جہیز  کے نام پر لڑکے والوں کا مطالبہ کرنے پر یا معاشرتی دباؤ  کی وجہ سے محض رسم پوری کرنے کے لیے لڑکے والوں کو سامان دینا پڑے اور مذکورہ سامان دینے میں بچی کے والدین کی رضامندی بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں لڑکے والوں کے لیے ایسا جہیز لینا ناجائز ہے۔ اور اگر ایسا جہیز بچی کے حوالہ کر بھی دیا گیا تو بچی ہی اس کی مالک ہوگی اور اس کی اجازت کے بغیر مذکورہ جہیز کے سامان کو لڑکے والوں کے لیے استعمال کرنا حلال نہیں ہوگا۔ فقط واللہ اعلم

حوالہ جات:

(۱)      جہیز : وہ سامان جو بیٹی کی شادی میں ماں باپ کی طرف سے دیا جائے (فیروز اللغات، ص۴۸۹)

الجهاز بالفتح، والكسر لغة قليلة، وهو اسم… لما تزف به المرأة إلى زوجها من متاع.( الموسوعة الفقهية الكويتية، ۱۶/۱۶۵، دارالسلاسل)

(۲)     ذهب جمهور الفقهاء إلى أنه لايجب على المرأة أن تتجهز بمهرها أو بشيء منه، وعلى الزوج أن يعد لها المنزل بكل ما يحتاج إليه ليكون سكنا شرعيا لائقا بهما. وإذا تجهزت بنفسها أو جهزها ذووها فالجهاز ملك لها خاص بها. (الموسوعة الفقهية الكويتية ، ۱۶/۱۶۶، دار السلاسل)

(۳)     قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تظلموا ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه»

(" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ۵/۱۹۷۴، دار الفكر)


فتوی نمبر : 144107201241

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں