بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جہیز کا حکم / مہر کی مقدار / ازواجِ مطہرات اور بناتِ طاہرہ کے مہر کی مقدار


سوال

ہمارے علاقے میں جہیز دینے کی ایک وباء پھیلی ہوئی ہے، والدین اپنی بیٹی کی شادی کے لیے بہت پریشان ہوتے ہیں، ہمارے علاقے میں بیٹی کو جہیز دینے کا جو رواج ہے وہ بہت زیادہ جہیز دیتے ہیں، سونا، فرنیچر، گھریلو سامان، ساٹھ سے ستر تک جوڑے، ایک جوڑے کی قیمت پانچ ہزار سے سات ہزار تک ہوتی ہے، بعض والدین غریب ہوتے ہیں تو وہ کئی مرتبہ اپنی زمینوں تک کو فروخت کردیتے ہیں، اور اس کے لیے قرضے لیتے ہیں، اس وباء میں وہاں کے علماء اور تبلیغی حضرات بھی مبتلا ہیں، دوسری طرف لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی کو جو مہر دیا جاتا ہے وہ صرف پانچ ہزار تک ہوتا ہے، اس سے زیادہ مہر کا رواج نہیں ہے۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ:

شریعت میں جہیز کی کیا حد ہے؟

ہمارے علاقے کی جو صورت ہے، اس صورت میں وہاں کے علماء کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟

شریعت میں مہر کی زیادتی کی کیا حد ہے؟

نبی کریم ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کو کتنا مہر دیا تھا اور آپ ﷺ کی بیٹیوں کا کتنا مہر مقرر کیا گیا تھا؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں جہیز نکاح کا کوئی لازمی جز نہیں ہے، نبی کریم ﷺ کے مبارک زمانہ میں نکاح کے وقت لڑکی کو جہیز دینے کا عمومی رواج نہیں تھا، صرف آپ ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی میں جہیز کا ذکر ملتا ہے لیکن اس کے بارے میں بھی علماء کی دو آراء ہیں۔

بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ یہ جہیز نبی کریم ﷺ نے اپنی طرف سے اپنی صاحبزادی کو عطا فرمایا تھا جب کہ دوسرے بعض کی علماء کی رائے یہ ہے کہ  جہیز کا سامان نبی کریم ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مال سے اور ان کے پیسوں سے خریدا تھا، اور چوں کہ نبی کریم ﷺ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سرپرست بھی تھے اس لیے آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مال سے جہیز کا سامان خرید کر ان کے گھر میں ضرورت کے سامان کا انتظام فرمایا تھا۔

اگر نبی کریم ﷺ نے اپنی طرف سے بھی جہیز کا سامان خرید کر اپنی صاحبزادی کو عطا فرمایا ہو تو روایات میں جہیز کی جن چیزوں کا ذکر ملتا ہے وہ صرف گھریلو ضرورت کی وہ چیزیں تھیں جو روز مرہ کے استعمال کی تھی، نسائی کی روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں ایک پلو دار چادر، ایک مشکیزہ اور ایک تکیہ دیا تھا جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی، مسند احمد کی روایت میں ہے کہ ایک لحاف، ایک گدّا، دو چکیاں، ایک مشکیزہ اور دو مٹی کے گھڑے جہیز میں عطا فرمائے تھے، مواہبِ لدنیہ کی روایت میں ایک چارپائی کا بھی ذکر ملتا ہے۔

ان تمام روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جہیز میں جو سامان عطا فرمایا تھا، وہ انتہائی مختصر اور گھریلو ضرورت کا سامان تھا، اس لیے علماء فرماتے ہیں کہ باپ اپنی خوشی سے بیٹی کو رخصتی کے وقت اپنی حیثیت کے مطابق اگر کچھ ضرورت کا سامان دینا چاہے تو شرعاً جائز ہے۔

جہیز نہ تو شادی کا لازمی جز ہے اور نہ ہی ہر باپ کے لیے  بیٹی کو جہیز دینا ضروری ہے، بلکہ اگر کوئی باپ نمود و نمائش کے لیے ضرورت سے زیادہ سامان جہیز میں دے تو  شرعاً ناجائز ہے، اسی طرح لڑکے والوں کے لیے زبان سے یا عمل سے لڑکی والوں سے جہیز کا مطالبہ کرنا اور جہیز نہ دینے پر یا کم دینے پر لڑکی کو طعنہ دیتے رہنا بھی شرعاً ناجائز ہے۔

جس علاقے میں جہیز کو ضروری سمجھاجانے لگا ہو اور اس کا اتنا رواج ہوگیا ہو کہ لڑکے والوں کی جانب سے صراحتاً یا عملاً اس کا مطالبہ ہوتا ہو، جہیز نہ دینے پر یا کم دینے پر لڑکی کو طعنے دیے جاتے ہوں، جس کی وجہ سے اس علاقے میں بیٹی کی شادی کرنا والدین کے لیے ایک مشکل مرحلہ بن چکا ہو  تو ایسے علاقے کے علماء کی ذمہ داری ہے کہ جہیز کی شرعی حیثیت کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی پیدا کریں، اپنی اور اپنے اقرباء کی شادیوں میں جہیز کو بالکل ترک کریں یا صرف ضرورت کے سامان تک محدود کریں تاکہ لوگ ان کے عمل کو ان کے قول کے موافق پا کر شرعی حدود سے تجاوز کرنے سے بچنے لگیں۔

مہر کی کم از کم مقدار تو شریعت میں متعین ہے اور دس درہم (یعنی 30.618 گرام چاندی) کی مقدار ہے لیکن زیادہ سے زیادہ مہر کی شریعت نے متعین نہیں کی، شوہر اپنی حیثیت کے مطابق زیادہ سے زیادہ جتنا مہر دینا چاہے، دے سکتا ہے تاہم شریعت نے مہر میں بہت زیادہ زیادتی کو پسند نہیں فرمایابلکہ مہر کے بارے میں یہ ہدایت دی ہے کہ وہ اتنا ہو کہ جس کی ادائیگی آسانی سے ہوسکے، چناچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: وہ نکاح بہت بابرکت ہے جس کا بوجھ کم سے کم پڑے، ایک دوسری روایت میں فرمایا: وہ عورت زیادہ بابرکت ہے جس کا مہر کم ہو، ایک روایت میں فرمایا: بہترین مہر وہ ہے جس کی ادائیگی آسان ہو۔

زیادہ مہر کو ناپسند قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ شریعت مطہرہ نہیں چاہتی کہ نوجوانوں کے لیے نکاح کو مشکل بنایا جائے کہ جس کے نتیجے میں بے حیائی اور فحاشی کا دروازہ کھلے، بلکہ شریعت یہ چاہتی ہے کہ نکاح کو زیادہ سے زیادہ آسان بنایا جائے تاکہ حلال راستہ ہر ایک کے لیے کھلا ہو اور معاشرہ فحاشی اور گندگی سے محفوظ رہ سکے۔

نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات اور آپ ﷺ کی بیٹیوں کا جو مہر تھا، اس کی مقدار  ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی منقول ہے، ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے تو اس حساب سے پانچ سو درہم بنتے ہیں۔

موجودہ اعشاری نظام میں پانچ سو درہم کی مقدار ایک کلو پانچ سو تیس گرام نو ملی گرام چاندی بنتی ہے، نبی کریم ﷺ کی ایک زوجہ مطہرہ حضرت امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا کا مہر زیادہ تھا، کیوں کہ ان کا مہر نجاشی نے مقرر کیا تھا اور ادائیگی بھی نجاشی بادشاہ نے ہی کی تھی تو اس نے اِن کا مہر ایک روایت کے مطابق چار ہزار درہم اور دوسری  روایت کے مطابق چار ہزار دینار مقرر کیا تھا۔

سنن النسائی میں ہے:

"عن علي، رضي الله عنه قال: جهز رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطمة في خميل وقربة ووسادة حشوها إذخر۔"

(سنن النسائی، ج: 6، کتاب النکاح، جہاز الرجل ابنتہ، ص: 135، ط: مکتب المطبوعات الاسلامیہ)

امداد الاحکام میں ہے:

باپ کا اپنی لڑکی کو نکاح کے وقت جہیز دینا سنتِ نبویہ سے ثابت ہے، رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کو شادی کے وقت جہیز دیا ہے۔

(امداد الاحکام، ج: 2، کتاب النکاح، ص: 371، ط: مکتبہ دار العلوم، کراچی)

معارف الحدیث میں ہے:

"ہمارے ملک میں اکثر اہلِ علم اس حدیث کا مطلب یہی سمجھتے اور بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ چیزیں (چادر، مشکیزہ، تکیہ) اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے موقع پر جہیز کے طور پر دی تھیں، لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس زمانہ مین عرب میں نکاح شادی کے موقع پر لڑکی کو جہیز کے طور پر کچھ سامان دینے کا رواج بلکہ تصور بھی نہیں تھا اور جہیز کا لفظ بھی استعمال نہیں ہوتا تھا، اس زمانہ کی شادیوں کے  سلسلے میں کہیں اس کا ذکر نہیں آتا، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ حضور ﷺ کی دوسری صاحبزادیوں کے نکاح کے سلسلے میں بھی کہیں کسی قسم کے جہیز کا ذکر نہیں آیا، حدیث کے لفظ جھزکے معنی اصطلاحی جہیز دینے کے نہیں، بلکہ ضرورت کا انتظام اور بندوبست کرنے کے ہیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے حضور ﷺ نے  ان چیزوں کا انتظام حضرت علی رضی اللہ کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے ان ہی کی طرف سے اور ان ہی کے پیسوں سے کیا تھا؛  کیوں کہ یہ ضروری چیزیں ان کے گھر میں نہیں تھیں، روایات سے اس کی پوری تفصیل معلوم ہوجاتی ہے، بہر حال یہ اصطلاحی جہیز نہیں تھا۔"

(معارف الحدیث، ج: 7، نکاح و ازدواج اور اس کے تعلقات، ص: 461، ط: دار الاشاعت)

الترغیب و الترہیب میں ہے:

"عن علي رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما زوجة فاطمة بعث معها بخميلة، ووسادة من أدم حشوها ليف، ورحيين، وسقاء، وجرتين ...رواه أحمد واللفظ له."

(الترغیب و الترہیب، ج: 2، کتاب الذکر و الدعا، الترغیب فی آیات و اذکار بعد الصلوات المکتوبات، ص: 452، ط: دار احیاء التراث العربی)

مواہبِ لدنیہ میں ہے:

"عن أنس قال: جاء أبو بكر ثم عمر يخطبان فاطمة إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسكت ولم يرجع إليهما شيئا  فانطلقا إلى علي رضي الله عنه يأمرانه بطلب ذلك. قال علي: فنبهاني لأمر، فقمت أجر ردائي حتى أتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت: تزوجني فاطمة؟ قال: "وعندك شيء"؟ فقلت: فرسي وبدني، قال: "أما فرسك فلا بد لك منها وأما بدنك فبعها"، فبعتها بأربعمائة وثمانين، فجئته بها، فوضعتها في حجره، فقبض منها قبضة فقال: "أي بلال: ابتع بها لنا طيبا وأمرهم أن يجهزوها، فجعل لها سرير مشروط، ووسادة من أدم حشوها ليف."

(المواهب اللدنية مع شرح الزرقاني، ج: 2، کتاب المغازی، ص: 360، ط: دار الکتب العلمیہ)

کفایت المفتی میں ہے:

"سوال: جہیز بقدرِ حیثیت دینا چاہیے، (الف) حیثیت سے زیادہ نام کے لیے دینا، (ب) جہیز کا بازار میں گشت کرانا۔۔۔الخ

جواب: بقدرِ حیثیت جہیز دینا چاہیے، (الف) حیثیت سے زیادہ دینا ناجائز ہے، (ب) شہرت و نمود کے لیے کیا جاتا ہے، اس لیے ناجائز ہے۔"

(کفایت المفتی، ج: 9، کتاب الحظر و الاباحۃ، ص: 89، ط: دار الاشاعت)

سنن دار قطني ميں هے:

"عن أنس بن مالك ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا ‌يحل ‌مال امرئ مسلم إلا بطيب نفسه۔"

(سنن الدارقطني، ج: 3، كتاب البيوع، ص: 424، ط: مؤسسة الرساله)

الفقه الإسلامي و أدلتهميں هے:

"أما الحد الأدنى للمهر قال الحنفية : أقل المهر عشرة دراهم، لحديث: لا مهر أقل من عشرة دراهم."

(الفقه الاسلامي و ادلته، ج: 9، القسم السادس: الاحوال الشخصيه، الباب الاول: الزواج و آثاره، الفصل السادس: آثار الزواج، ص: 6764، ط: دار الفكر)

و فیہ ایضاً:

"ليس للمهر حد أقصى بالاتفاق ؛ لأنه لم يرد في الشرع ما يدل على تحديده بحد أعلى، لقوله تعالى: { … وآتيتم إحداهن قنطارا، فلا تأخذوا منه شيئا} [النساء:20/ 4]۔۔۔ولكن يسن تخفيف الصداق وعدم المغالاة في المهور، لقوله صلى الله عليه وسلم: إن أعظم النكاح بركة أيسره مؤونة،  وفي رواية  إن أعظم النساء بركة أيسرهن صداقا  وروى أبو داود وصححه الحاكم عن عقبة بن عامر حديث:  خير الصداق أيسره والحكمة من منع المغالاة في المهور واضحة وهي تيسير الزواج للشباب، حتى لا ينصرفوا عنه، فتقع مفاسد خلقية واجتماعية متعددة."

(الفقه الاسلامي و ادلته، ج: 9، القسم السادس: الاحوال الشخصيه، الباب الاول: الزواج و آثاره، الفصل السادس: آثار الزواج، ص: 6763، ط: دار الفكر)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي سلمة قال: سألت عائشة: كم كان صداق النبي صلى الله عليه وسلم قالت: كان صداقه لأزواجه اثنتي عشرة أوقية ونش قالت: أتدري ما النش؟ قلت: لا قالت: نصف أوقية فتلك خمسمائة درهم. رواه مسلم."

(مشکاۃ المصابیح، ج: 2، کتاب النکاح، باب الصداق، الفصل الاول، ص: 957، ط: المکتب الاسلامی)

وفیہ ایضاً:

"عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: ألا لا تغالوا صدقة النساء فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا وتقوى عند الله لكان أولاكم بها نبي الله صلى الله عليه وسلم ما علمت رسول الله صلى الله عليه وسلم نكح شيئا من نسائه ولا أنكح شيئا من بناته على أكثر من اثنتي عشرة أوقية. رواه أحمد والترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي."

(مشکاۃ المصابیح، ج: 2، کتاب النکاح، باب الصداق، الفصل الثانی، ص: 958، ط: المکتب الاسلامی)

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن الزهري،  أن النجاشي، زوج أم حبيبة بنت أبي سفيان من رسول الله صلى الله عليه وسلم على صداق أربعة آلاف درهم وكتب بذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقبل۔"

(سنن ابی داؤد، ج: 2، کتاب النکاح، باب الصداق، ص: 235، ط: المکتب العصریہ)

شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ میں ہے:

"روي أنه صلى الله عليه وسلم بعث عمرو بن أمية الضمري إلى النجاشي ليخطبها عليه، فزوجها إياه، وأصدقها عنه أربعمائة دينار، وبعث بها إليه مع  شرحيبل بن حسنة۔"

(زرقانی، ج: 4، الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاہرات، ص: 405، ط: دار الکتب العلمیہ)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100821

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں