بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جہیز دینا کس کے ذمے ہے؟


سوال

لڑکی کو جو جہیز کا سامان دیا جاتا ہے یہ سامان مہیا کرنا لڑکے والوں کے ذمہ ہے یا لڑکی کے گھر والوں کے ذمہ ہے؟

جواب

واضح رهے كه ’’جہیز‘‘  ان تحائف اور سامان کا نام ہے جو والدین اپنی بچی کو رخصت کرتے ہوئے دیتے ہیں،اور یہ جہیز دینا شرعاً نہ تو والدین کے ذمہ ہے نہ لڑکےوالوں کے ذمہ ہے، البتہ شادی کے بعد  گھر کی ضروریات کا سامان مہیا کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے۔

باقی اگروالدین اپنی رضا و خوشی سے اپنی بیٹی کو رخصتی کے موقع پر کچھ دینا چاہیں تو یہ شرعی طور پر ممنوع بھی نہیں ہے، اور بچی ہی جہیز کے سامان کی مالک ہوگی،  لیکن اس جہیز دینے ميں مبالغہ اور نمائش وغیرہ نہ کی جائے، اور نہ ہی لڑکے والوں کی طرف سے اس کا مطالبہ ہو۔ 

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"الجهاز بالفتح، والكسر لغة قليلة، وهو اسم… لما تزف به المرأة إلى زوجها من متاع". 

"ذهب جمهور الفقهاء إلى أنه لا يجب على المرأة أن تتجهز بمهرها أو بشيء منه، وعلى الزوج أن يعد لها المنزل بكل ما يحتاج إليه ليكون سكنا شرعيا لائقا بهما. وإذا تجهزت بنفسها أو جهزها ذووها فالجهاز ملك لها خاص بها". 

(الموسوعة الفقهية الكويتية، ص:166، ج:16، دار السلاسل)

امداد الاحکام میں ہے:

باپ کا اپنی لڑکی کو نکاح کے وقت جہیز دینا سنت نبویہ سے ثابت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کو شادی کے وقت جہیز دیا ہے۔ اسی طرح نکاح کے وقت شوہر کا عورت کو زیور کپڑے وغیرہ دینا سنت سے ثابت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جس وقت نکاح کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس جانا چاہا تو حضور نے فرمایا:  "أعطھا شيئًا، قال: ماعندي ما أعطيتها! قال: فأين درعك الحطمية . الحديث. و في حديث الواهبة نفسها لرسول الله صلى الله عليه و سلم و لم يكن له فيها غرض فقام رجل و قال: زوجنيها يا رسول الله إن لم يكن لك بها حاجة! فقال: هل عندك ما تعطيها؟ قال: لا إلا إزاري، قال: فالتمس شيئًا و لو خاتمًا من الحديد. الحديث. كلاهما صحيح" ان روایات سے ثابت ہے کہ شوہر کو عورت پاس جانے سے پہلے اس کو کچھ دینا چاہیے یہ عورت کا حق ہے۔ پس شادی میں کپڑے زیور وغیرہ دینے کا جو رواج ہے یہ رواج فی نفسہ خلاف شرع نہیں۔ البتہ اس میں افراط و غلو مناسب نہیں کہ اس قدر اہتمام کیا جائے جس سے پریشانی ہو اور قرض کا بار عظیم ہوجائے۔ باقی اپنی حیثیت کے موافق اہتمام کرنا شریعت کے موافق ہے۔ 

(کتاب النکاح، ص:371، ج:2، ط:مکتبہ دار العلوم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100785

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں