بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جاگنے کے بعد منی نکلنے کے بغیر محض لطف محسوس کرنے سے غسل کا حکم


سوال

 کوئی شخص بستر پر سوتا ہے اور اسی درمیان وہ بستر سے انگڑائیاں لیتا ہے،  انگڑائیاں لینے کی وجہ سے عضو تناسل پر اثر پڑتا ہے، اور اثر پڑنے کی وجہ سے وہ مزہ بھی حاصل کرلیتا ہے جو مزہ منی نکلتے وقت آتا ہے، لیکن منی باہر نکلنے نہیں دیتا ہے، ذرہ برابر بھی، بلکہ اندر ہی سما لیتا ہے، تو اس کا کیا حکم ہوگا ؟غسل فرض ہوگا کیا یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب منی شرم گاہ سے باہر نہیں نکلی، بلکہ شرم گاہ کے اندر ہی رہی، تو محض لطف محسوس کرنے سے غسل فرض نہیں گا۔

ملحوظ رہے کہ انگڑائیاں اس طریقے سے لینا کہ خود لذتی کی کیفیت محسوس ہوجائے، یہ عمل باعثِ گناہ ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے، قرآن مجید میں ہے:

{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ}

ترجمہ:”  اور جو اپنی شہوت کی جگہ کو تھامتے ہیں، مگر اپنی عورتوں پر یا اپنے ہاتھ کے مال باندیوں پر، سو ان پر نہیں کچھ الزام۔ پھر جو کوئی ڈھونڈے اس کے سوا، سو وہی ہیں حد سے بڑھنے والے۔“ 

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وفرض) الغسل (عند) خروج (مني) من العضو وإلا فلا يفرض اتفاقا؛ لأنه في حكم الباطن (منفصل عن مقره) هو صلب الرجل وترائب المرأة.

(قوله: وفرض الغسل) الظاهر أنه أراد بالفرض ما يعم العلمي والعملي؛ لأنه عند رؤية مستيقظ بللا ليس مما ثبت بدليل لا شبهة فيه كما نبه عليه في الحلية؛ ولذا خالف فيه أبو يوسف كما سيأتي.

(قوله: عند خروج) لم يقل بخروج؛ لأن السبب هو ما لا يحل مع الجنابة كما اختاره في الفتح وسيذكره الشارح في قوله وعند انقطاع حيض ونفاس، ولو قال وبعد خروج لكان أظهر؛ لأنه لا يجب قبل السبب.

(قوله: مني) أي مني الخارج منه، الخلاف ما لو خرج من المرأة مني الرجل كما يأتي، وشمل ما يكون به بلوغ المراهق على ما سيذكره المصنف.

(قوله: من العضو) هو ذكر الرجل وفرج المرأة الداخل احترازا عن خروجه من مقره ولم يخرج من العضو بأن بقي في قصبة الذكر أو الفرج الداخل، أما لو خرج من جرح في الخصية بعد انفصاله عن مقره بشهوة فالظاهر افتراض الغسل. وليراجع".

(کتاب الطہارۃ، سنن الغسل، ج:1، ص:159، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504102079

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں