بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جائز کام کے لیے مجبوراً رشوت دینا


سوال

میرے والد صاحب سرکاری ملازم ہیں، ریٹائرڈ ہونے میں کچھ سال باقی ہیں، ان کا ارادہ ہے کہ ہفتہ وار بازار کا کاروبار کیا جاۓ، جس کے لیے مختلف گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ سے پرمیشن لینی ہوتی ہے، جب کہ تمام تر اصل دستاویزات موجود ہیں، مگر  پھر بھی افسران کو اپنے عہدے کے حساب سے  طے  شدہ رقم رشوت کے طور پر دینا لازم ہے، اس کے دیے بنا آپ بازار نہیں لگا سکتے، اس صورت میں کیا کرنا ہوگا؟ آیا ہر ہفتہ پیسے دیے جائیں یا کچھ اور کام کیا جائے؟ آج کل کراچی میں کسی بھی کام کو شروع کرو تو پولیس موبائل مٹھائی کے پیسے کے نام پر رشوت لے جاتی ہے ، نہ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، چاہے دوکان ڈالنی ہو یا مکان کی چھت، اس صورت میں شریعت کا  کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ رشوت  لینے  اور  دینے  والے  پر    رسولِ اکرم  ﷺ   نے  لعنت  فرمائی ہے، چناں چہ رشوت لینا اور دینا دونوں ناجائز ہیں،  اس  لیے حتی  الامکان  رشوت  دینے  سے  بچنا   واجب ہے، البتہ اگر کوئی  جائز  کام تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرنے اور حق ثابت ہونےکے باوجود صرف رشوت نہ دینے کی وجہ سے  نہ ہورہا ہو تو ایسی صورت میں حق دار  شخص کو چاہیے  اولاً وہ اپنی پوری کوشش کرے کہ رشوت دیے  بغیر کسی طرح (مثلاً حکامِ بالا کے علم میں لاکر یا متعلقہ ادارے میں کوئی واقفیت نکال کر)   کسی طرح اس کا کام ہوجائے،اور جب تک کام نہ ہو  اس وقت تک صبر کرے اور صلاۃ الحاجۃ پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مسئلہ حل ہونے کی دعا مانگتا رہے، لیکن اگر شدید ضرورت ہو اور  کوئی دوسرا متبادل راستہ نہ ہو تو   جائز حق کی وصولی کے  لیے مجبوراً  رشوت دینے کی صورت میں  دینے والا گناہ گار نہ ہوگا، البتہ رشوت لینے والے شخص کے حق میں رشوت کی وہ رقم ناجائز ہی رہے گی اور اسے اس رشوت لینے کا سخت گناہ ملے گا۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ جو حق ابھی تک ثابت نہ ہو رشوت دے کر اسے حاصل کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ 

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے والد کسی جگہ ہفتہ وار بازار لگانا چاہتے ہیں  اور اس کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے باوجود رشوت دینی پڑتی ہو  اور  رشوت کے بغیر یہ کام نہ ہوتا ہو تو مجبورًا رشوت دی جا سکتی ہے اور اس پر توبہ و استغفار بھی کیا جائے، امید ہے کہ مؤاخذہ نہ ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسه و ماله و لإستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع اهـ."

(6/ 423،  کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144212201865

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں