بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جائیداد کی تقسیم


سوال

(۱) ہمارے والد محترم مؤرخہ ۵رمضان المبارک۱۴۴۱ھ بمطابق ۲۸ اپریل ۲۰۲۰ء  کو بقضاءِ الہی انتقال فرماگئے، ان کے ورثا ء مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ اہلیہ ۔ ۲۔ تین بیٹے۔ ۳۔ ایک بیٹی۔

اور ان کا ترکہ مندرجہ ذیل ہے:

۱۔ تین منزلہ مکان۔ مالیت : ۲کڑوڑ پچہتر لاکھ روپے۔

۲۔ فلیٹ نمبر۱۔ مالیت: پنتالیس لاکھ روپے۔

۳۔ فلیٹ نمبر۲۔ مالیت: تینتیس لاکھ روپے۔

۴۔ فلیٹ نمبر۳۔ مالیت:تینتیس لاکھ روپے۔

۵۔ دوکان نمبر ۱۔ مالیت: ستر لاکھ روپے۔

۶۔ دوکان نمبر۲۔ ٍمالیت : فی الحال صفر (پراجیکٹ فیل ہوگیا)

اِن کی تقسیم کے بارے میں ہماری رہنمائی فرمادیں۔

(۲)  مزید یہ کہ والد صاحب کی مندرجہ ذیل چیزوں کا تمام ورثاء کی باہمی رضا مندی سے والدہ محترمہ کو مالک بنا دیا ہے:

۱۔ والد مرحوم کی ذاتی استعمال کی اشیاء۔(کپڑے، دوائیاں، جوتے وغیرہ) ۲۔ گھریلو استعمال کی عمومی اشیاء۔(صوفے، لائٹ پنکھے، الماریاں وغیرہ) بمعہ ایک عدد گاڑی۔ اس کے بارے میں بھی شرعی رہنمائی فرمادیں۔

(۳)  ہم نے آپس کے مشورہ سے چندامور میراث کی تقسیم کے سلسلہ میں طے کیے  جن میں اِس بات کا پورا لحاظ رکھنے کی کوشش کی کہ ہروارث کو اُس کا پورا حصہ مل جائے، خصوصاً والدہ محترمہ اور بہن کو پورا حصہ دینے کی کوشش کی۔

۱۔ بہن کو فلیٹ نمبر۱ جس کی مالیت ۴۵۰۰۰۰۰ پنتالیس لاکھ روپے ہے، اور باقی ماندہ رقم مستقبل میں نقدی کی صورت میں ادا کریں گے۔

۲۔والدہ محترمہ کو دوکان نمبر ۱ جس کی مالیت ۷۰۰۰۰۰۰ ستر لاکھ روپے ہے، نیز دوکان نمبر ۲ جس کی مالیت تقریباً فی الحال صفر ہے، تمام بھائیوں اور بہن کی رضامندی سے دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

۳۔تین منزلہ مکان جس کی مالیت ۲۷۵۰۰۰۰۰ دو کڑوڑ پچہتر لاکھ روپے ہے، اور فلیٹ نمبر ۲،۳ جس کی مالیت تقریباً ۶۶۰۰۰۰۰ چھیاسٹھ لاکھ روپے ہے، تینوں بیٹوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ باہمی رضامندی سے ہوا۔ ۴۔ باہمی رضامندی سے یہ بات بھی طے ہوئی کہ گھرمیں موجود رقم کو والدہ محترمہ کو مالک بنا دیا جائے، جب کہ بینک میں موجود رقم (پانچ لاکھ روپے) کو تمام ورثاء میں تقسیم کردیا جائے۔

ہماری مندرجہ بالا تقسیم جوکہ تمام ورثاء کی باہمی رضامندی سے کی گئی ہے کا شرعاً کیا حکم ہے ؟

(۴) والد محترم کے انتقال کے بعد جو کرایہ دار ہیں آیا وہ بدستور سابق کرایہ داری کے معاملہ کے مطابق باقی رہیں گے، (ہم تمام ورثاء سابق کرایہ داری کے معاملہ باقی رکھنے کو بخوشی راضی ہیں) یا از سر نو ان سے کرایہ داری کا معاملہ کرنا ہوگا؟

جواب

1- مذکورہ صورت میں ہر بیٹے کا حصہ میراث میں سے 25 فیصد ہے، اور ساڑھے بارہ فیصد  بہن کا ، اور ساڑھے بارہ فیصد  بیوہ (یعنی آپ کی والدہ محترمہ) کا  ہے۔اس شرح سے تمام جائیدادتقسیم کرلیں۔

2- جو اشیا والدہ کو دی گئی ہیں، اگر ورثاء میں کوئی نابالغ نہیں تو  ایسا کرنا درست ہے۔

3- مذکورہ اشیاء دینے کے بعد جو رقم کسی کے حصہ کی باقی رہ گئی ہو وہ ادا کرنا دیگر ورثاء پر لازم ہے، الا یہ تقسیم کے وقت کوئی عاقل بالغ وارث کچھ حصہ یا کوئی جائیداد لے کر اپنی رضامندی سے اپنے باقی حصے سے دست بردار ہوجائے۔

4- کرایہ داری کا جو معاہدہ آپ کے والد نے کیا تھا، وہ ختم ہو گیا ، اب آپ دوبارہ سے معاہدہ کریں، خواہ سابقہ کرایہ داروں سے کریں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 222):
"ومنها موت من وقع له الإجارة إلا لعذر عندنا، وعند الشافعي لايبطل بالموت كبيع العين، والكلام فيه على أصل ذكرناه في كيفية انعقاد هذا العقد، وهو أن الإجارة عندنا تنعقد ساعةً فساعةً على حسب حدوث المنافع شيئًا فشيئًا.
وإذا كان كذلك فما يحدث من المنافع في يد الوارث لم يملكها المورث لعدمها، والملك صفة الموجود لا المعدوم فلا يملكها الوارث، إذ الوارث إنما يملك ما كان على ملك المورث، فما لم يملكه يستحيل وراثته، بخلاف بيع العين؛ لأن العين ملك قائم بنفسه ملكه المورث إلى وقت الموت، فجاز أن ينتقل منه إلى الوارث؛ لأن المنافع لا تملك إلا بالعقد وما يحدث منها في يد الوارث لم يعقد عليه رأساً". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144110200300

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں