بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جائیداد نام کرنے سے پہلے انتقال کی صورت میں حکم


سوال

 میرے والد کے انتقال کے بعد ہم سب میں وراثت تقسیم ہوئی، لیکن میرے بھائی نے میری والدہ کا حصہ ان کو دیا نہیں، کیوں کہ ان کو فوری ضرورت نہیں تھی، اس کے کچھ عرصے بعد میری والدہ نے میرے بڑے بھائی اور مجھے کہنا شروع کر دیا کہ ان کا حصہ مجھے دے دیا جائے، جس کے گواہ میرے دو اور بہن بھائی سمیت میری کزن بھی ہے ،میرے بڑے بھائی نے بھی اس بات کو مان لیا تھا ،لیکن انہوں نے حصہ میرے نام نہیں کیا تھا اور میری والدہ کا انتقال ہو گیا،یہ سب بات زبانی کلامی طے ہوئی تھی اور میری دو بہنیں اس بات سے ناواقف تھیں،بھائی کا ارادہ یہی تھا کہ امی کی زندگی میں ہی نام کر دیں، لیکن امی کی اچانک ہی وفات ہو گئی تو کیا اب میں اس حصے کی اکیلی حق دار ہوں یا وہ سب ورثہ میں تقسیم کیا جائے؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں سائلہ کی مرحوم والدہ نے   اپنی  زندگی میں  اپنا حصہ سائلہ کے نام کرنے کا کہاتھا ،لیکن ان کی  زندگی میں  سائلہ کے نام کرکے  نہیں  دیا  گیا تھا،اس سے شرعاً سائلہ اس کی مالک نہیں بنی ؛لہذا اب چوں کہ والدہ  کا انتقال ہوچکا ہے تو مذکورہ حصہ والدہ کی میراث بن کر تمام ورثاء میں شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوگا ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"لا يثبت الملك ‌للموهوب ‌له ‌إلا ‌بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."

(کتاب الہبۃ،الباب الثانی فیما یجوز من الہبۃ،ج:4،ص:378،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101058

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں