بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جائیداد میں زکات کاحکم


سوال

 ہم ۹ بہن بھائی ہیں،   جس میں سے صرف بڑے بھائی کی شادی ہوئی ہے اور باقی سب غیر شادی شدہ  ہیں  اور ہمارے پاس بیلنس 50 لاکھ ہے  ، جو ہمارے والد مرحوم کو پینشن  میں ملا تھا اور اس سے ہم نے ایک جائیداد منافع کے لیے لی تھی ، پچھلے دو سال سے نہیں بک رہا اور ہم نے دو سال زکات بھی ادا کی ، اس جائیداد پر اب ہم اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ  دوسرے بھائی کی شادی کروائیں ، کیا اب بھی ہم پر زکات دینا لازمی ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  جب مذکورہ جائیداد  تجارت کی نیت سے خریدی ہے  تو اس پر زکات کا حکم یہ ہے کہ  جب تک اسے بیچنے کی نیت باقی ہے اورتقسیم کرنے کی صورت میں ہر ایک کی ملکیت چاندی کے نصاب سے زائد ہوتی ہو تو  اس صورت میں سبِ  صاحب نصاب ہیں، اور نصاب پر سال گزرنے کے بعد سب پر زکات واجب ہوگی، ورنہ واجب نہیں ہوگی ۔

فتاوی شامی میں ہے : 

"او عرض تجارة قيمته نصاب من ذهب أو ورق".

(کتاب الزکاۃ ، باب زکاۃالمال 2 /298  ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي)...(تام) (و) فارغ (عن حاجته الأصلية)".

(كتاب الزكاۃ 2 /259  /262 ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"نصاب الذهب عشرون مثقالا والفضة مائتا درهم".

(کتاب الزکاۃ ، باب زکاۃالمال 2 /295 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144409100409

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں