بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جادو سے بچنے کے لیے عملیات کا سہارا لینا


سوال

اگر کوئی جادوگر بار بار جادو کرتا ہے اور مانتا نہیں ہے اور جان سے مارنا چاہتا ہے اور کرنے والی بہو ہے تو کیا پلٹ کر اس سے بچنے کے لیے وار کر سکتے ہیں ؟ گھر والے خوب اذکار کرتے ہیں، پھر ہوجائے تو قصاص لے سکتے ہیں ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں اپنی حفاظت کی خاطر جادو کا توڑ کرنے  کے لیے عملیات کا سہارا لینا اس وقت جائز ہے،  جب  کہ  اس  کی  شرائط  کا  خیال  رکھا  جائے جو   کہ  یہ   ہیں:

(1)   کلمات کا معنی  ومفہوم معلوم ہو۔

 (2)  ان میں  کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو۔

(3)  ان کے مؤثر بالذات ہونے   کا اعتقاد نہ ہو۔

  (4)  عملیات کرنے  والے کے عقائد درست ہوں۔

(5) عملیات کرنے والا علاج سے واقف اور   ماہر ہو، فریب   نہ  کرتا ہو۔ 

(6)  کسی بھی غیر شرعی امر کا ارتکاب  نہ  کرنا پڑے،  مثلًا: اجنبیہ  عورتوں  سے  اختلاط  و  بے  پردگی  وغیرہ۔

تاہم   کسی کو نقصان پہنچانے   کی نیت  سے (پلٹ کر وار کرنے کے لیے) عملیات کا استعمال  جائز  نہیں  ہے۔

رہی  بات  قصاص  کی تو  جادو کے اثر سے یقینی طور پر کیا نقصان ہوا ہے؟ اس کی وضاحت کرکے سوال کریں۔

مرقاۃ المفاتیح   میں ہے:

’’و أما ما كان من الآيات القرآنية، و الأسماء و الصفات الربانية، و الدعوات المأثورة النبوية، فلا بأس، بل يستحب سواء كان تعويذاً أو رقيةً أو نشرةً، و أما على لغة العبرانية و نحوها، فيمتنع؛ لاحتمال الشرك فيها.‘‘

(7 / 2880، رقم الحدیث:4553، الفصل الثانی، کتاب الطب والرقی، ط: دارالفکر بیروت)

و فیه أیضاً:

’’(أو تعلقت تميمةً): أي: أخذتها علاقةً، و المراد من التميمة ما كان من تمائم الجاهلية و رقاها، فإنّ القسم الذي اختص بأسماء الله تعالى و كلماته غير داخل في جملته، بل هو مستحبّ مرجوّ البركة عرف ذلك من أصل السنة، و قيل: يمنع إذا كان هناك نوع قدح في التوكل، و يؤيده صنيع ابن مسعود - رضي الله عنه - على ما تقدم، و الله أعلم‘‘.

(7 / 2881، رقم الحدیث:4553، الفصل الثانی، کتاب الطب و الرقی، ط: دارالفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201985

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں