جادو کی حقیقت کیا ہے،یعنی جادو مؤثر ہے یا نہیں؟جادو کرنے اور کروانے والوں کا شریعت میں کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ جادو ہرایسے امر عجیب کو کہا جاتا ہے،جس میں شیاطین کو خوش کر کے ان کی مدد حاصل کی گئی ہو،پھر شیاطین کو خوش کرنے کی مختلف صورتیں ہیں،کبھی ایسے منتر اختیار کیے جاتے ہیں ،جس میں کفر وشرک کے کلمات ہوں اور شیاطین کی مدح کی گئی ہو،کبھی ایسے اعمال اختیارکیے جاتے ہیں،جو شیطان کو پسند ہیں،مثلاًجنابت کی حالت میں رہنا،طہارت سے اجتناب کرنا وغیرہ(از معارف القران)
جادوکااثربھی ہواکرتاہے،لیکن جادو میں اثراللہ تعالیٰ ہی نےرکھاہے،لہٰذاجادو کومؤثرِحقیقی نہیں کہاجاسکتا،بل کہ ہرچیزمیں مؤثرِحقیقی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے،اس کے حکم کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرسکتا، مخلوق میں سے جو کوئی، جو کچھ کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے ارادے اور حکم سے ہوتا ہے۔
جادو کرنا اور کروانا یا اس میں تعاون کرنا سب ناجائز ، حرام اور سخت گناہ ہے،دونوں ہی مجرم اور مستحق سزا ہیں۔
قرآن كريم میں ہے:
"وَمَا هُم بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّه ." (البقرة، الآية:102)
ترجمہ:" اوریہ ساحرلوگ اس کےذریعے سےکسی کوبھی ضررنہیں پہنچاسکتےمگرخداہی کے(تقدیری )حکم سے"۔(بیان القرآن)
کفایت المفتی میں ہے:
"سوال :جادو کیا ہےاور اس کا قران و حدیث سے ثبوت ملتا ہے یا نہیں؟
جواب :اگرچہ سحر کے معنی میں اختلاف ہے اور اس کی تحدید و تعیین میں کئی قول ہیں، لیکن اس میں شبہ نہیں کہ اس سے عام طور پر جو معنی مراد لیے جاتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ جو کام شیاطین کی مدد سے ہوتے ہیں، ان میں شیاطین کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ان کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہے اور ان کا آثار بھی ظاہر ہوتے ہیں، وہ کام جادو کہلاتے ہیں۔"
(باب السحر والعوذۃ،ج:12،ص:478۔477،ط:ادارہ الفاروق کراچی)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"سوال: کیا مسلمان کا جادو کرنا جائز ہے،اور جو جادو کا عمل کرتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:سحر کرنا کبیرہ گناہ ہے۔"
(باب السحر والعوذۃ،ج:20،ص:48،ط:ادارہ الفاروق کراچی)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: والسحر) هو علم يستفاد منه حصول ملكة نفسانية يقتدر بها على أفعال غريبة لأسباب خفية۔۔۔السحر حق عندنا وجوده وتصوره وأثره.)"
(المقدمة، مطلب في التنجيم والرمل، ج:1، ص:44 ط: سعيد)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) الكافر بسبب اعتقاد (السحر) لا توبة له (ولو امرأة) في الأصح.
مطلب في الساحر والزنديق (قوله والكافر بسبب اعتقاد السحر) في الفتح: السحر حرام بلا خلاف بين أهل العلم، واعتقاد إباحته كفر. وعن أصحابنا ومالك وأحمد يكفر الساحر بتعلمه وفعله سواء اعتقد الحرمة أو لا ويقتل وفيه حديث مرفوع «حد الساحر ضربة بالسيف» يعني القتل وعند الشافعي لا يقتل ولا يكفر إلا إذا اعتقد إباحته. وأما الكاهن، فقيل هو الساحر، وقيل هو العراف الذي يحدث ويتخرص، وقيل من له من الجن من يأتيه بالأخبار. وقال أصحابنا: إن اعتقد أن الشياطين يفعلون له ما يشاء كفر لا إن اعتقد أنه تخييل، وعند الشافعي إن اعتقد ما يوجب الكفر مثل التقرب إلى الكواكب وأنها تفعل ما يلتمسه كفر. وعند أحمد حكمه كالساحر في رواية يقتل، وفي رواية إن لم يتب، ويجب أن لا يعدل عن مذهب الشافعي في كفر الساحر والعراف وعدمه. وأما قتله فيجب ولا يستتاب إذا عرفت مزاولته لعمل السحر لسعيه بالفساد في الأرض لا بمجرد علمه إذا لم يكن في اعتقاده ما يوجب كفره. اهـ. وحاصله أنه اختار أنه لا يكفر إلا إذا اعتقد مكفرا، وبه جزم في النهر، وتبعه الشارح، وأنه يقتل مطلقا إن عرف تعاطيه له، ويؤيده ما في الخانية: اتخذ لعبة ليفرق بين المرء وزوجه. قالوا: هو مرتد ويقتل إن كان يعتقد لها أثرا ويعتقد التفريق من اللعبة لأنه كافر. اهـ. وفي نور العين عن المختارات: ساحر يسحر ويدعي الخلق من نفسه يكفر ويقتل لردته. وساحر يسحر وهو جاحد لا يستتاب منه ويقتل إذا ثبت سحره دفعا للضرر عن الناس. وساحر يسحر تجربة ولا يعتقد به لا يكفر. قال أبو حنيفة: الساحر إذا أقر بسحره أو ثبت بالبينة يقتل ولا يستتاب منه، والمسلم والذمي والحر والعبد فيه سواء."
(كتاب الجهاد،4 / 240، باب المرتد، ط: سعيد)
فتاوی شامی میں ہے:
"ثم إنه لا يلزم من عدم كفره مطلقا عدم قتله؛ لأن قتله بسبب سعيه بالفساد كما مر. فإذا ثبت إضراره بسحره ولو بغير مكفر: يقتل دفعا لشره كالخناق وقطاع الطريق."
(مقدمة، مطلب في التنجیم والرمل و مطلب السحر أنواع، ج:1، ص:44/45،ط: سعید)
فقظ واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102194
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن