بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جادو کے توڑ کے لیے جادو سیکھنا


سوال

جادو کا سیکھنا جائز ہے؟ کیا رد سحر  کے لیے سحر سیکھا جا سکتا ہے؟

 

جواب

سحر کی مختلف اقسام ہیں، بعض توکفرِ محض ہیں اور بعض نہیں،جو اقسام کفر ہیں ، ان کا استعمال کرنا یا سیکھنا سکھانا ہر حال میں حرام ہے۔ خواہ دفع ضرر کے لیے ہو یاکسی اور غرض کے لیے،  اسی طرح جو قسم کفر تو نہیں ہے، لیکن گناہوں پر مشتمل ہے، اس کا استعمال بھی جائز نہیں ہے۔

البتہ سحر کی جو قسم کسی عقیدۂ  کفر  پر مشتمل نہیں، اس کو اگر دوسروں کو  نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا  جائے تو  وہ بھی حرام ہے،  اور اگر جادو کے توڑ کے لیے  یا نقصان کو دور کرنے کے لیے کیا جائے تو گنجائش ہے۔

ان دونوں قسموں کی تفصیل یہ ہے کہ جس سحر میں شیاطین و جنات وغیرہ سے استعانت و امداد طلب کی جائے اور ان کو متصرف ومؤثر مانا جائے یا جن میں قرآن شریف یا دوسرے اسلامی شعائر کی توہین کی گئی ہو وہ  کفر ہے۔

اور جس میں یہ امور نہ ہوں، بلکہ خاص ادویہ وغیرہ سے یا کسی اور خفی طریق سے اثر ڈالاجاتا ہے، وہ کفر تو نہیں، مگر اس کا استعمال بھی نقصان پہنچانے کی غرض سے  حرام ہے  اور نقصان دور کرنے کی غرض سے  جائز ہے ؛ لہذا  مسلمانوں کو ضرر اور نقصان سے بچانے کے لیے  اس قسم کا سیکھنا اور  استعمال کرنا بقدر ضرورت جائز ہے۔

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ  ”معارف القرآن“ میں رقم طراز ہیں :

"غرض اصطلاح قرآن وسنت میں جس کو سحر کہا گیا ہے،  وہ کفر اعتقادی یا کم از کم کفر عملی سے خالی نہیں ہوتا،  اگر شیاطین کو راضی کرنے کے کچھ اقوال یا اعمال کفر و شرک کے اختیار کیے تو کفرِ حقیقی اعتقادی ہوگا،  اور اگر کفر و شرک کے اقوال و افعال سے بچ بھی گیا ، مگر دوسرے گناہوں کا ارتکاب کیا تو کفرِ عملی سے خالی نہ رہا،  قرآن عزیز کی آیات مذکورہ میں جو سحر کو ”کفر“  کہا گیا ہے وہ اسی اعتبار سے ہے کہ یہ سحر کفر حقیقی اعتقادی یا کفر عملی سے خالی نہیں ہوتا،  خلاصہ یہ ہے کہ جس سحر میں کوئی عمل کفر اختیار کیا گیا ہو جیسے شیاطین سے استغاثہ واستمداد یا کواکب کی تاثیر کو مستقل ماننا یا سحر کو معجزہ قرار دے کر اپنی نبوت کا دعویٰ کرنا وغیرہ ، تو یہ سحر باجماع کفر ہے،  اور جس میں یہ افعال کفر نہ ہوں، مگر معاصی کا ارتکاب ہو وہ گناہِ  کبیرہ ہے۔

مسئلہ : جب یہ معلوم ہوگیا کہ یہ کفر اعتقادی یا عملی سے خالی نہیں تو اس کا سیکھنا اور سکھانا بھی حرام ہوا، اس پر عمل کرنا بھی حرام ہوا،  البتہ اگر مسلمانوں سے دفع ضرر  کے لیے بقدر ضرورت سیکھا جائے تو بعض فقہاء نے اجازت دی ہے ۔(شامی،  عالمگیری) "

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 44):

"(قوله: والسحر) هو علم يستفاد منه حصول ملكة نفسانية يقتدر بها على أفعال غريبة لأسباب خفية. اهـ. ح. وفي حاشية الإيضاح لبيري زاده قال الشمني: تعلمه وتعليمه حرام.

أقول: مقتضى الإطلاق ولو تعلم لدفع الضرر عن المسلمين وفي شرح الزعفراني: السحر حق عندنا وجوده وتصوره وأثره. وفي ذخيرة الناظر تعلمه فرض لرد ساحر أهل الحرب، وحرام ليفرق به بين المرأة وزوجها، وجائز ليوفق بينهما. اهـ. ابن عبد الرزاق. قال ط بعد نقله عن بعضهم عن المحيط: وفيه أنه ورد في الحديث النهي عن التولة بوزن عنبة: وهي ما يفعل ليحبب المرأة إلى زوجها. اهـ.

أقول: بل نص على حرمتها في الخانية، وعلله ابن وهبان بأنه ضرب من السحر. قال ابن الشحنة ومقتضاه أنه ليس مجرد كتابة آيات، بل فيه شيء زائد اهـ وسيأتي تمامه قبيل إحياء الموات إن شاء الله تعالى. وذكر في فتح القدير أنه لا تقبل توبة الساحر والزنديق في ظاهر المذهب فيجب قتل الساحر ولا يستتاب بسعيه بالفساد لا بمجرد علمه إذا لم يكن في اعتقاده ما يوجب كفره اهـ.

وذكر في تبيين المحارم عن الإمام أبي منصور أن القول بأن السحر كفر على الإطلاق خطأ ويجب البحث عن حقيقته، فإن كان في ذلك رد ما لزم في شرط الإيمان فهو كفر وإلا فلا. اهـ.

أقول: وقد ذكر الإمام القرافي المالكي الفرق بين ما هو سحر يكفر به وبين غيره، وأطال في ذلك بما يلزم مراجعته من أواخر شرح اللقاني الكبير على الجوهرة. ومن كتاب [الإعلام في قواطع الإسلام] للعلامة ابن حجر.

مطلب السحر أنواع

وحاصله أن السحر اسم جنس لثلاثة أنواع: الأول: السيمياء، وهي ما يركب من خواص أرضية كدهن خاص أو كلمات خاصة توجب إدراك الحواس الخمس أو بعضها بما له وجود حقيقي، أو بما هو تخيل صرف من مأكول أو مشموم أو غيرهما.

الثاني: الهيمياء، وهي ما يوجب ذلك مضافا لآثار سماوية لا أرضية.

الثالث: بعض خواص الحقائق، كما يؤخذ سبع أحجار يرمى بها نوع من الكلاب إذا رمى بحجر عضه، فإذا عضها الكلب وطرحت في ماء فمن شربه ظهرت عليه آثار خاصة فهذه أنواع السحر الثلاثة، قد تقع بما هو كفر من لفظ أو اعتقاد أو فعل، وقد تقع بغيره كوضع الأحجار. وللسحر فصول كثيرة في كتبهم. فليس كل ما يسمى سحرا كفرا، إذ ليس التكفير به لما يترتب عليه من الضرر بل لما يقع به مما هو كفر كاعتقاد انفراد الكواكب: بالربوبية أو إهانة قرآن أو كلام مكفر ونحو ذلك اهـ ملخصا، وهذا موافق لكلام إمام الهدى أبي منصور الماتريدي، ثم إنه لا يلزم من عدم كفره مطلقا عدم قتله؛ لأن قتله بسبب سعيه بالفساد كما مر. فإذا ثبت إضراره بسحره ولو بغير مكفر: يقتل دفعا لشره كالخناق وقطاع الطريق."

(فتاوی شامي، مقدمة، مطلب في التنجیم والرمل و مطلب: السحر أنواع: ۱؍۴۴،۴۵۔ط: ایچ ایم سعید کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200608

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں