زید اور اس کی بیوی پر اکثر جادو اور جنات وغیرہ کے اثرات رہتے ہیں،ایسے ہی ایک رات سوۓ ہوۓ اچانک زید کی بیوی نے اسے اٹھایا اور اسے کہا کہ مجھے طلاق دو،اس وقت بقول زید کی بیوی کے اس پر سحر وغیرہ کا اثر تھا اور اسے ہوش نہ تھا، جب کہ زید اس وقت ہوش میں تھا، لیکن بعد ازاں زید پر بھی سحر کا اثر ہوا اور اس دوران اس نے بیوی کو طلاق دی، لیکن الفاظ اور تعداد میاں بیوی دونوں کے علم میں نہیں، کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوگئی؟
صورتِ مسئولہ میں شوہرپر اگر پہلے سے جادو اور سحر کے اثرات ہو ،اس کا مسحور ہونا معلوم ، معروف اور مشہور ہو، طلاق کے وقت بھی مسحور ہو اور سحرکی وجہ سے اس کی ایسی کیفیت ہوگئی ہو کہ اس کوبالکل ہوش نہ رہا ہو، عقل مغلوب ہوگئی ہو، خیراورشر کی تمیز مفقود ہو ،اس کو یہ معلوم نہ ہو رہا ہو کہ زبان سے کیا الفاظ کہہ رہا ہے اور اس کا نتیجہ کیا ہوگااور جادو سے ہوش آنے کے بعد اس کو یاد نہ ہو کہ بے ہوشی کی حالت میں اس نے کیا کہا تھا، تو ایسی بے ہوشی کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے،شرط یہ ہے کہ شوہر قسم کھا کرکہہ دے وہ سحر کے اثر میں تھا اور وہ اپنے اختیار میں نہ تھا، لیکن اگر اس کی ایسی کیفیت نہ تھی ، تو طلاق واقع ہو گئی ہے۔چونکہ دونوں میاں بیوی طلاق پر اتفاق کرتے ہیں اور ایک سے زائد طلاقوں کا یقین نہیں ہے اس لیے ایک طلاق واقع ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في التلويح: الجنون اختلال القوة المميزة بين الأمور الحسنة والقبيحة المدركة للعواقب، بأن لا تظهر آثاره وتتعطل أفعالها، إما لنقصان جبل عليه دماغه في أصل الخلقة، وإما لخروج مزاج الدماغ عن الاعتدال بسبب خلط أو آفة، وإما لاستيلاء الشيطان عليه وإلقاء الخيالات الفاسدة إليه بحيث يفرح ويفزع من غير ما يصلح سببا. اهـ."
(3/243، کتاب الطلاق، ط: سعید)
وفیہ أیضاً:
"وسئل نظماً فيمن طلق زوجته ثلاثاً في مجلس القاضي وهو مغتاظ مدهوش، أجاب نظماً أيضاً بأن الدهش من أقسام الجنون فلا يقع، وإذا كان يعتاده بأن عرف منه الدهش مرةً يصدق بلا برهان. اهـ. قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لايتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله ... فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل."
( کتاب الطلاق، مطلب فی طلاق المدہوش ،244/3،ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144310101127
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن