بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جدہ میں رہنے والے کا جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے حرم شریف جانا


سوال

میں جدہ میں مقیم ہوں اور میں  جمعہ کی نماز مکہ مکرمہ   میں حرم شریف میں پڑھتا ہوں ،لیکن پورے ہفتہ کی نمازیں میں گھر پر پڑھتا ہوں یا جب مارکیٹ میں ہوتا ہوں تو مارکیٹ کی مسجد میں ادا کر لیتا ہوں میرا سوال یہ ہے کہ کیا میرا یہ عمل قابلِ  قبول ہوگا یا نہیں؟

جواب

سائل کا   نمازِ  جمعہ کی ادائیگی کے لیے مکہ معظمہ  جانا اور  وہاں حرم شریف میں جمعہ کی نماز اداکر نا شرعًا درست   اور فضیلت والا عمل ہے ،باقی عام دنوں کی نمازیں جدہ میں پڑھنا درست ہے ،البتہ  بلا عذر گھر میں  فرض نماز پڑھنا صحیح نہیں  ہے،اپنے گھر کے قریب کسی مسجد میں جماعت  کے ساتھ  نماز ادا کریں ،نماز باجماعت ادا کرنا سنتِِ مؤکدہ ، واجب کے قریب ہے، احادیثِ مبارکہ میں ترکِِ جماعت پر سخت وعیدیں آئی ہیں، بلاعذر جماعت ترک کرنا گناہ ہے۔

سنن النسائي (2/ 106)

'' قال أبو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «ما من ثلاثة في قرية و لا بدو لاتقام فيهم الصلاة إلا قد استحوذ عليهم الشيطان، فعليكم بالجماعة؛ فإنما يأكل الذئب القاصية». قال السائب: يعني بالجماعة الجماعة في الصلاة."
ابو درداء  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسولِ کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ ارشاد فرماتے تھے کہ جس وقت کسی بستی یا جنگل میں تین افراد  ہوں اور وہ نماز کی جماعت نہ کریں تو سمجھ لو کہ ان لوگوں پر شیطان غالب آگیا ہے اور تم لوگ اپنے ذمہ جماعت سے نماز لازم کرلو ، کیوں  کہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو کہ اپنے ریوڑ سے علیحدہ ہوگئی ہو۔ حضرت سائب نے فرمایا کہ اس سے مراد نماز باجماعت ہے۔

سنن أبي داود (1/ 151):

"عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سمع المنادي فلم يمنعه من اتباعه، عذر»، قالوا: وما العذر؟، قال: «خوف أو مرض، لم تقبل منه الصلاة التي صلى»."

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مؤذن کی آواز سنے اور کسی عذر کے نہ ہونے کے باوجود مسجد کو  نہ جائے (بلکہ گھر میں ہی نماز پڑھ لے)  تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔صحابہ نے پوچھا: عذر کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: خوف (یعنی دشمن کا) یا مرض۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 552)

''(والجماعة سنة مؤكدة للرجال)."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 658):

"أفضل المساجد مكة، ثم المدينة،  ثم القدس، ثم قبا، ثم الأقدم، ثم الأعظم؛ ثم الأقرب، ومسجد أستاذه لدرسه أو لسماع الأخبار أفضل اتفاقا؛ ومسجد حيه أفضل من الجامع."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202070

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں