بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جدہ کے رہائشی کے لیے بغیر احرام کے حرم میں نماز کے لیے داخل ہونا


سوال

کیا جدہ میں رہنے والا شخص حرم میں نماز پڑھنے جاسکتا ہے جب کہ وہ عمرہ کی نیت نہ کرے اور احرام بھی نہ پہنے یا اس کے لیے احرام اور عمرہ ضروری ہوگا؟  نیز اگر کوئی پاکستانی مکہ میں یا جدہ میں مقیم ہو ملازمت کے سلسلے میں تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

1- جو شخص جدہ کا رہائشی ہو یا ملازمت کے سلسلے میں وہاں مقیم ہو اور وہ حج و عمرہ کے علاوہ نماز پڑھنے کے لیے یا کسی دوسرے کام سے مکہ مکرمہ میں داخل ہونا چاہتا ہو تو اس کے لیے احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہونا جائز ہے، کیوں کہ جدہ میقات میں داخل ہے اور اگر حج یا عمرہ کا ارادہ ہو تو ایسی صورت میں اس کے لیے  احرام باندھ کر ہی حرم میں داخل ہونا ضروری ہے، چناں چہ حرم سے باہر "حل"  میں کسی بھی جگہ احرام باندھ لینا اس کے لیے  کافی ہے۔  اگر وہ احرام کے بغیر حرم  میں داخل ہوگیا اور احرام باندھنے دوبارہ حل  پر بھی نہیں گیا تو اس پر دم لازم ہوگا۔

2- جو پاکستانی مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر ہو وہ بلااحرام حرم میں جاکر نماز پڑھ سکتا ہے، عمرے کا ارادہ ہو تو حدود حرم سے باہر جاکر احرام باندھے اور حج کا ارادہ ہو تو مکہ ہی سے احرام باندھنا ہوگا۔

'غنیۃ الناسک'  میں  ہے:

"آفاقي مسلم مکلف أراد دخول مکة أو الحرم  ولولتجارة أو سیاحة وجاوز آخر مواقیته غیر محرم ثم أحرم أولم یحرم أثم ولزمه دم وعلیه العود إلی میقاته الذي جاوزه أو إلی غیره أقرب أو أبعد ، وإلی میقاته الذي جاوزه أفضل، وعن أبي یوسف: إن کان الذي یرجع إلیه محاذیاً لمیقاته الذي جاوزه أو أبعد منه سقط الدم  وإلا فلا، فإن لم یعد ولا عذر له أثم؛ لترکه العود الواجب."

(ص: 60، باب مجاوزۃ المیقات بغیر احرام ، ط: ادارۃ القرآن)

فتاوی عالمگیری میں  ہے:

"و لايجوز للآفاقي أن يدخل مكة بغير إحرام نوى النسك أو لا، ولو دخلها فعليه حجة أو عمرة، كذا في محيط السرخسي في باب دخول مكة بغير إحرام. ومن كان داخل الميقات كالبستاني له أن يدخل مكة لحاجة بلا إحرام إلا إذا أراد النسك فالنسك لايتأدى إلا بالإحرام، ولا حرج فيه، كذا في الكافي."

(1/ 221، کتاب المناسک، ط: رشدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201376

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں