بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

جبراً یعنی زور زبردستی بیع کرنے کی شرعی حیثیت


سوال

کیا پرائیویٹ اسلامک اسکول میں یونیفارم، کتابیں اور کاپیوں کیبیع جبراًغبنِ فاحشکے ساتھ جائز ہے؟کیوں کہ کچھ اسلامک اسکول طلبہ کو اس کاپابندبناتے ہیں کہ ہمارے یہاں سے ہی مذکورہ خریدی ہوئی چیزیں معتبر ہوں گی ورنہ نہیں، اور وہ بہت زیادہ غبن فاحش کے ساتھ بیع کرتے ہیں، اور اس علاقے میں دوسرے سب عیسائی اسکول ہیں، جہاں بچوں کو پڑھانےمیں ان کے ایمان کا خطرہ ہے تو ان اسلامی اسکول والوں کا عمل شرعاً کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں نفع لینے کی کوئی حد متعین نہیں ہے،تاہم نفع اتنا ہونا چاہیے جتنا عام طور پر لیا جاتا ہو البتہ  کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر کوئی بھی چیز  اتنے زیادہ نفع پر بیچنا  جس کو عرف میں ”غبنِ فاحش“   (کہ  کسی چیز کی بازار میں جو زیادہ سے زیادہ  قیمت لگائی جاتی ہے،اس سے بھی زیادہ قیمت وصول کی جاۓ )سمجھا جاتا ہو یہ مروت کے خلاف ہے، اس سے بچنا ضروری ہے۔
لہذااسلامک اسکول والوں کواس بات کاخیال رکھناچاہیے کہ وہ مناسب قیمت پرہی کتابیں /کاپیاں وغیرہ فروخت کریں ،خاص کرجب کہ علاقے میں دوسرے اسکول عیسائیوں کے ہیں ،کیوں کہ ہوسکتاہے کہ کوئی اسی مالی بوجھ کی  وجہ سے اپنے بچےکوعیسائی اسکول میں داخل کرادےاورپھراس کاعقیدہ خراب ہوجائے،تومذکورہ اسلامک اسکول والےبھی اس کےساتھ  سبب کے درجہ کے حد تک گناہ میں شریک ہوں گے۔
قرآن کریم میں ہے:

"يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَاْكُلُـوٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُـوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَـرَاضٍ مِّنْكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوٓا اَنْفُسَكُمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا."

ترجمہ:”اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ آپس کی خوشی سے تجارت ہو، اور آپس میں کسی کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔“

(سورة النساء29)

مشکات شریف میں ہے:

"عن علي رضي الله عنه قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌عن ‌بيع ‌المضطر وعن بيع الغرر وعن بيع الثمرة قبل أن تدرك."

ترجمہ:”حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجبور و بےبس شخص کی بیع سے، دھوکے کی بیع سے اور پھلوں کی بیع سے اس سے پہلے کہ وہ پک جائیں منع فرمایا ہے۔“

(كتاب البيوع، باب المنهي عنها من البيوع، الفصل الثاني، ج:2، ص:767، ط:المكتب الإسلامي)

وفيه ايضاً:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا ‌بطيب نفس منه."

ترجمہ: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:خبردار کسی پر بھی ظلم نہ کرنا، اچھی طرح سنو!کہ کسی دوسرے شخص کا مال اس کی خوشی  کے بغیر  حلال نہیں ہے۔“

(كتاب البيوع، ‌‌باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج:2، ص:889، ط:المكتب الإسلامي)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"فالبيع ما شرع إلا لطلب الربح والفضل فالفضل الذي ‌يقابله ‌العوض حلال ككسبه بالبيع."

(كتاب البيوع، أنواع الربا،ج:12، ص:119،ط: دارالمعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604101992

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں