ایک عورت کے شادی شدہ دیور نےبندوق کے ذریعے دھمکی دے کر اپنے بھائی کی بیوی سے زنا کیا، پھر دیور فرار ہوگیا، اب اس عورت سے اس کے والدین بات چیت نہیں کررہے ، تو والدین کا مذکورہ عورت سے قطع تعلقی کرنا کیسا ہے ؟موجودہ زمانے میں حد جاری کرنے کا اختیا ر کس کو ہو گا ؟ جب کہ اسلامی حکومت نہیں ہے،دیو ر پر موجودہ زمانے میں سزا کیا ہو گی ؟
واضح رہے کہ زنا شرعاً ایک سنگین اور کبیرہ گناہ ہے ۔ اس کی قباحت و شناعت پر قرآن و حدیث میں بہت سی وعید میں وارد ہوئی ہیں، شرعا اس کی سخت سزا بھی متعین ہے ۔ اور اگر زنا جبراً ہو تو شرعی، اخلاقی اور قانونی طور پر اس کی قباحت و شناعت مزید بڑھ جاتی ہے ۔
لہذا صورت مسئولہ میں واقعتا اگر مذکورہ شخص نے زنا بالجبر کا ارتکاب کیا ہے تو سخت گناہ اور سنگین جرم کا مرتکب ہوا ہے ، اگر شرائط کے مطابق اس کا جرم ثابت ہو جائے تو اس کی شرعی سزا یہ ہے کہ اگر شادی شدہ ہو تو اس کو سنگسار کیا جائے اور اگر غیر شادی شدہ ہو تو اس کو سو کوڑے مارے جائیں۔
اگر وہ واقعتًا مجرم ہو، لیکن قانونی اعتبار سے جرم ثابت نہ ہو سکے تو عند اللہ وہ مجرم و گناہ گار ہے ، اسے اللہ کی پکڑ سے ڈرنا چاہیے ۔
جب کہ مذکورہ عورت زنا پر راضی نہیں تھی جب زنا کا شکار ہوگئی تو شر عاوہ بے قصور ہے، ایسی صورت میں متاثرہ عورت پر نہ کوئی گناہ ہے اور نہ کوئی شرعی سزا جاری ہوگی لہذا والدین یا خاندان کا اس سے قطع تعلق کرنا جائز نہیں ہے ۔
واضح رہے کہ حدود اور تعزیرات کے نفاذ کا اختیار حکومت کو ہے ، عوام کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ سزاؤں کا نفاذ ماورائے عدالت از خود کریں ۔
ارشاد باری تعالی ہے :
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا (سورۃ بنی اسرآئیل ،الآیة:32)
ترجمہ :اور زنا کےقریب بھی مت جاؤبلاشہ وہ بڑی بے حیائی کی بات ہے اور بری راہ ہے ۔
وفیہ ایضا:
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُ وَاكُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذُكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدُ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (سورۃ النور،الآیة:2)
ترجمہ : زنا کرانے والی عورت اور زنا کرنے والا مردسوان میں سے ہر ایک کے سودرے مارو اور تم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ کےمعاملہ میں ذرا رحم نہ آنا چاہئے اگر اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور دونوں کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک کو حاضر رہنا چاہئے ۔"(بیان القرآن)
سنن الترمذی میں ہے:
"و قد روي عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا زنى العبد خرج منه الإيمان فكان فوق رأسه كالظلة، فإذا خرج من ذلك العمل عاد إليه الإيمان."
( أبواب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ،باب لا يزني الزاني وهو مؤمن ،ج:4،ص:573،ط:دار الرسالة العالمية)
ترجمہ: "اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب بندہ زنا کرتا ہے اس سے ایمان نکل جاتاہے،پس اس کے سر پر سائبان کی طرح ہوتا ہے ،پھر جب اس عمل سے نکلتا ہے تو ایمان اس کی طرف لوٹ جاتا ہے۔"
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن ولا ينتهب نهبة ذات شرف يرفع الناس إليه أبصارهم فيها حين ينتهبها وهو مؤمن ولا يغل أحدكم حين يغل وهو مؤمن فإياكم إياكم."
(کتاب الإیمان ، باب الکبائر و علامات النفاق، ج:1، ص : 23، ط : دار المکتب الاسلامي بیروت)
ترجمہ:"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا شراب پینے والا جب شراب پیتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا اور چھینا جھپٹی کرتا ہے اورلوگ اس کو (کھلم کھلا) چھینا جھپٹی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں (لیکن خوف و دہشت کے مارے بے بس ہوجاتے ہیں اور چیخ و پکار کے علاوہ اس کا کچھ نہیں بگاڑتے تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا پس تم (ان گناہوں سے) بچو۔"
جامع المسانید والسنن میں ہے:
"حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا الأوزاعي، حدثنا الزهري، عن الطفيل ابن الحارث وكان رجلا من أزد شنؤة وكان أخا لعائشة لأمها أم رومان فذكر الحديث فاستعان عليها بالمسور بن مخرمة وعبد الرحمن بن الأسود بن عبد يغوث فاستأذنا عليها فأذنت لهما فكلماها وناشداها الله والقرابة وقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: لايحل لأمرئ مسلم يهجر أخاه فوق ثلاث أيام."
(احادیث عمروبن دینا ر عن المسور،ج:7،ص: 424،رقم الحدیث :9426،ط:دار خضر بیروت ،لبنان)
صحيح بخاری میں ہے:
" عن ابن شهاب: أن محمد بن جبير بن مطعم قال إن جبير بن مطعم، أخبره: أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: لا يدخل الجنة قاطع."
ترجمہ : "حضرت جبیر بن مطعم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔"
(كتاب الآداب، باب: إثم القاطع، ج:5، ص:2231، ط:دار إبن كثير دمشق)
سنن ابن ماجہ میں ہے:
"حدثنا بكر بن خلف أبو بشر، حدثنا يحيى بن سعيد، عن سعيد بن أبي عروبة، عن قتادة، عن يونس بن جبير، عن حطان بن عبد الله، عن عبادة بن الصامت، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "خذوا عني، خذوا عني، قد جعل الله لهن سبيلا، البكر بالبكر جلد مئة وتغريب سنة، والثيب بالثيب جلد مئة والرجم."
( کتاب الحدود ،باب حد الزنا ،ص547 ،2550،دار الصديق، السعودیة)
ترجمہ :حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"مجھ سے (حدود کا حکم) لے لو، مجھ سے لے لو، اللہ تعالیٰ نے ان (زانی مرد و عورت) کے لیے راستہ مقرر کر دیا ہے:کنوارا زنا کرے تو اس کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کے لیے جلاوطن کیا جائے گا،اور شادی شدہ زنا کرے تو اسے بھی سو کوڑے مارے جائیں گے اور سنگسار (رجم) کیا جائے گا۔"
موسوعۃ الفقہ الاسلامی میں ہے:
"لو أكره الشخص بملجئ على الزنا لم يرخص له لأن فى الزنا قتل أنفس بضياعها اذ ولد الزنا هالك حكما لعدم من يربيه فلا يستباح بضرورة ما كالقتل. ولا يحد المكره عليه استحسانا. بل يغرم المهر ولو كان المزنى بها طائعة لأن المهر والحد لا يسقطان جميعا فى دار الاسلام. ولا يرجع على المكره بشئ لأن منفعة الوط ء حصلت للزانى كما لو أكره على أكل طعام نفسه جائعا.
أما المرأة فيرخص لها الزنا بالاكراه الملجئ لأن نسب الولد لا ينقطع فلم يكن فى معنى القتل من جانبها بخلاف الرجل. ولا يرخص لها بغير الملجئ لكنه أى غير الملجئ يسقط الحد فى زناها لأنه لما كان الملجئ رخصة لها كان غيره شبهة لها."
(الإكراه فى الزنا، مذهب الحنفية، ج: 23، ص: 114، ط: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية)
فتاوی شامی میں ہے:
"وأما شرائط جواز إقامتها فمنها ما يعم الحدود كلها، ومنها ما يخص البعض دون البعض، أما الذي يعم الحدود كلها فهو الإمامة: وهو أن يكون المقيم للحد هو الإمام أو من ولاه الإمام وهذا عندنا."
(کتاب الحدود،ج:7،ص:57،ط:دار الکتب العلمیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100554
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن