بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جبری انشورنس کے لازمی ہونے اور اولاد کا نکاح کروانے پر پابندی والے علاقے سے ہجرت کا حکم


سوال

جن علاقوں میں قانونی طور پر کسی حرام کام پر مجبور کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر انشورنس لینے پر مجبور کیا جاتا ہے یا اپنی بالغ اولاد کی شادی کروانے سے روک دیا جاتا ہے،تو کیا مجبوری کی وجہ سےحسب استطاعت ان علاقوں سے ہجرت کرنا شرعاً واجب ہوجاتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جس شہر یا ملک میں انسان کواپنے دین پر قائم رہنے کی آزادی نہ ہو،اور کفر و شرک پر یا احکامِ شرعیہ کی خلاف ورزی پر مجبور  کیا جاتاہوتو قدرت ہونے کی صورت میں وہاں سے ہجرت کرکے کسی دوسرےشہر یا ملک میں  جہاں دین پر   عمل کرنے کی آزادی ہو ،چلا جاناواجب ہے،اور  جہاں عام احکامِ شرعیہ پر عمل کرنے کی آزادی ہو وہاں سے ہجرت کرنافرض واجب نہیں، بلکہ مستحب ہے ، اس میں دارالکفر ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ دارالفسق جہاں اعلانیہ احکامِ شرع کی خلاف ورزی کی جاتی ہو اس کا بھی یہی حکم ہے ۔

مذکورہ تفصیل کے بعد ،صورت ِ مسئولہ میں انشورنس  کرواناسرے سے حرام اور ناجائز ہے،اور اس پر کسی مسلمان کو مجبور کرنے کی وجہ سے اس کی حرمت و قباحت دو چند ہوجاتی ہے، اسی طرح  بالغ اولاد کے نکاح پر قانوناً پابندی عائد کرنا بھی شریعت کے احکام کے صریح خلاف ہے، مذکورہ علاقہ اگر كفار  كا ہو  اور وہاں اوامر ِ شریعت کی خلاف ورزی پر مجبور کیے جانے کی وجہ سے دین پر عمل کرنا ممکن نہ ہو اور دوسری جگہ جاکر اسلامی احکام پر عمل کرنے کی قدرت ہو تو ایسی صورت میں اس علاقے سے ہجرت کرنا واجب ہے اور اگر ایساعلاقہ احکامِ شرع کے خلاف امور انجام دینے والے مسلمانوں کا ہویا کفار کا ہو ،لیکن ذکر کردہ احکام کے سوا  شریعت کے اکثر احکام پر عمل کرنے کی آزادی ہو توایسی صورت میں مذکورہ علاقے ميں بسنے والے افراد کا وہاں سےہجرت كر كے کسی ایسے علاقے میں چلے جانا مستحب ہے جہاں احکامِ شرع پر عمل کرنا ممکن ہو، فرض یا واجب  نہیں ہے۔

تفسیرِ طبری میں ہے:

" عن سعيد بن جبير في قوله: (إنَّ أَرْضِي وَاسِعَةٌ) قال: إذا عُمِل فيها بالمعاصي، فاخرج منها.... عن عطاء قال: إذا أمِرتم بالمعاصي فاهربوا، فإن أرضي واسعة.... وأولى القولين بتأويل الآية، قول من قال: معنى ذلك: إن أرضي واسعة، فاهربوا ممن منعكم من العمل بطاعتي؛ لدلالة قوله: (فَإِيَّايَ فَاعْبُدُونِ) على ذلك، وأن ذلك هو أظهر معنييه."

(العنكبوت:55،ج:20، ص:55،56،، ط:دار التربية والتراث)

اللباب فی علوم الکتاب میں ہے:

"قال ابن العربي: قسم العلماء الذهاب في الأرض [إلى] قسمين: هربا، وطلبا والأول ينقسم ستة أقسام:

أحدها: الهجرة: وهي الخروج من دار الحرب إلى دار الإسلام، وكانت فرضا في أيام النبي صلى الله عليه وسلم ، وهذه الهجرة باقية مفروضةى إلى يوم القيامة، والتي انقطعت بالفتح: حي القصد إلى النبي صلى الله عليه وسلم حيث كان، فإن بقي في دار الحرب، عصى ويختلف في حاله.

وثانيها: الخروج من أرض البدعة؛ كما تقدم نقله عن مالك؛ فإنه إذا لم يقدر على أزالة المنكر يزول عنه، قال [الله]- تعالى -: {وإذا رأيت الذين يخوضون في آياتنا فأعرض عنهم}.

وثالثها: الخروج من أرض غلب عليها الحرام؛ لأن طلب الحلال فرض على كل مسلم...."

(النساء:100، ط:599،600/6، ط: دارالکتب العلمیة)

تفسیر مدارک التنزیل میں ہے:

"والآية تدل على أن من لم يتمكن من إقامة دينه في بلد كما يجب وعلم أنه يتمكن من إقامته في غيره حقت عليه المهاجرة."

(النساء: 97، 388/1، ط:دارالكلم الطيب)

فیض القدیر میں ہے:

"‌البلاد ‌بلاد ‌الله والعباد عباد الله فحيثما أصبت خيرا فأقم) وهذا معنى قوله: {يا عبادي الذين آمنوا إن أرضي واسعة فإياي فاعبدون} وظاهره أنه لا فضل للزوم الوطن والإقامة به على الإقامة بغيره لكن الأولى بالمريد أن يلازم مكانه إذا لم يكن قصده من السفر استفادة علم مهما سلم له حاله في وطنه وإلا فليطلب موضعا أقرب إلى الخمول وأسلم للدين وأفرغ للقلب وأيسر للعبادة فهو أفضل اه وجرى على نحوه في الكشاف فقال: معنى الآية أنه إذا لم يتسهل له العبادة في بلد هو فيه ولم يتمشى أمر دينه كما يجب فليهاجر لبلد آخر يقدر أنه فيه أسلم قلبا وأصح دينا وأكثر عبادة وأحسن خشوعا."

(‌‌حرف الباء الموحدة،223/3، ط:المكتبة التجارية الكبرى)

فتح الباری میں ہے:

"قوله كان المؤمنون يفر أحدهم بدينه إلخ أشارت عائشة إلى بيان مشروعية الهجرة وأن سببها خوف الفتنة والحكم يدور مع علته فمقتضاه أن من قدر على عبادة الله في أي موضع اتفق لم تجب عليه الهجرة منه وإلا وجبت ومن ثم قال الماوردي إذا قدر على إظهار الدين في بلد من بلاد الكفر فقد صارت البلد به دار إسلام فالإقامة فيها أفضل من الرحلة منها لما يترجى من دخول غيره في الإسلام."

(قوله باب هجرة النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه إلى المدينة،229/7، ط: دارالمعرفة)

فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

"سوال: اس زمانے میں ہجرت کرنا یعنی وطن چھوڑ کے چلے جانا مسلمان پر فرض ہے یا نہیں؟

جواب: اس زمانے میں بھی جہاں کفار کا زور ہے اور احکام شرعیہ آزادی کے ساتھ ادا نہ کیے جا سکتے ہوں تو ترکِ وطن کر کے کسی اسلامی مملکت میں چلے جانا ضروری ہے."

(کتاب الحظر والاباحۃ ، ج:10، ص:233، دار الاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"مسئلۂ ہجرت اہم مسائل میں سے ہے،جس مقام پر کوئی شخص اپنے دین،نفس،عزت،عیال،مال کی حفاظت پر قادر نہ ہو اور شعائرِ اسلام پر کما یجب عمل نہ کرسکتا ہو اور کسی دوسری جگہ جاکر قدرت حاصل ہوسکتی ہو اور راستہ بھی مامون ہو تو اس کے ذمے ہجرت واجب ہوتی ہے."

(کتاب السیاسۃ والہجرۃ، دارالاسلام،دارالحرب اوردار الہجرۃ کا بیان،ج:4، ص:639، ط:إدارۃ الفاروق ،کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100613

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں