بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جبرًا دی جانے والی تحریری طلاق کے وقوع و عدم وقوع کا بیان


سوال

 جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے فتوی نمبر ۱۴۳۹۰۵۲۰۰۰۰۳ میں جو عدمِ  وقوعِ  طلاق کا تعلق جبر سے ہے،  اس میں  جبر سے کیا مراد ہے؟ 

جواب

فتوی نمبر  143905200003 میں جو والد کے مجبور کرنے کی وجہ سے طلاق نامہ پر دستخط کرنے  کی صورت میں طلاق واقع نہ ہونے کی بات لکھی گئی ہے،  اس سے مراد یہ ہے کہ والد نے باقاعدہ جان سے مارنے یا ہاتھ پیر توڑنے وغیرہ کی دھمکی دے کر طلاق دینے پر مجبور کیا ہو اور والد اس پر قادر بھی ہو اور شوہر کو اندیشہ بھی ہو کہ اگر اس نے والد کی بات نہ مانی تو والد دھمکی پر عمل کر گزرے گا تو اس صورت میں اگر شوہر  نے ڈر کر جان بچانے کی نیت سے زبان سے تلفظ کیے بغیر صرف طلاق نامہ پر دستخط کردیے ہوں تو طلاق واقع نہیں ہوگی، لیکن اگر والد کے جان سے مارنے وغیرہ کی دھمکی دیے بغیر صرف زیادہ اصرار کرنے کی وجہ سے شوہر نے مجبور ہوکر طلاق نامہ پر دستخط کردیے ہوں یا دھمکی تو جان سے مارنے کی دی لیکن شوہر کو اندازا ہوکہ دھمکی پر عمل کی قدرت نہیں ہے، اس کے باوجود اس نے اخلاقی دباؤ میں آکر طلاق نامے پر دستخط کردیے تو طلاق واقع ہوجائے گی،  چاہے زبان سے تلفظ نہ بھی کیا ہو، کیوں کہ صرف طلاق دینے پر اصرار کرنا ’’اکراہِ ملجئی‘‘ نہیں ہے، بلکہ یہ ’’اکراہ غیر ملجئی‘‘ ہے جس کا عدم وقوع طلاق میں کوئی اعتبار نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 128):

الإكراه. (هو لغة حمل الإنسان على) شيء يكرهه وشرعا (فعل يوجد من المكره فيحدث في المحل معنى يصير به مدفوعا إلى الفعل الذي طلب منه) وهو نوعان تام وهو الملجئ بتلف نفس أو عضو أو ضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجئ. (وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير (أو لحق الشرع) كشرب الخمر والزنا (فلو أكره بقتل أو ضرب شديد) متلف لا بسوط أو سوطين إلا على المذاكير والعين بزازية (أو حبس) أو قيد مديدين بخلاف حبس يوم أو قيده أو ضرب غير شديد إلا لذي جاه درر (حتى باع أو اشترى أو أقر أو آجر فسخ) ما عقد ولا يبطل حق الفسخ بموت أحدهما ولا بموت المشتري، ولا بالزيادة المنفصلة، وتضمن بالتعدي وسيجيء أنه يسترد وإن تداولته الأيدي (أو أمضى) لأن الإكراه الملجئ، وغير الملجئ يعدمان الرضا، والرضا شرط لصحة هذه العقود وكذا لصحة الإقرار فلذا صار له حق الفسخ والإمضاء 
(قوله: يعدمان الرضا) قال ابن الكمال في هامش شرحه، أخطأ صدر الشريعة في تخصيصه إعدام الرضا بغير الملجئ اهـ. 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 651):

(قوله: أي إكراه) هو حمل الغير على ما لا يرضاه بحر، وأشار إلى أن المراد مصدر المزيد؛ لأن الكره أثر الإكراه، لكن كل منهما صحيح أيضا فافهم (قوله: ولو غير ملجئ) الملجئ ما يفوت النفس أو العضو، وغير الملجئ بخلافه.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201355

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں