بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

آبائی وطن سے رہائش ختم کرنےکی صورت میں وہاں قصرکرنالازم ہے


سوال

میری  اوروالدین کی رہائش کوئٹہ شہرمیں ہے،اورہماراآبائی وطن (برشور)ہے،جہاں ہمارےباغ گھروغیرہ ہیں،اوراب چوں کہ کبھی کبھارچار،پانچ دن کےلیے گاؤں جاناہوتاہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیامیں (برشور)گاؤں میں قصرکروں گایااتمام؟جب کہ کوئٹہ اورگاؤں کےدرمیان شرعی مسافت72کلومیٹرکافاصلہ ہے۔

اوراگرقصرلازم ہے،اورمیں نےاتمام کی ہےتوان نمازوں کاکیاحکم ہے؟

نوٹ:وطن اصلی  بالکل ترک یعنی  چھوڑدیاگیاہے،اوروطن اصلی جانےکی نیت ہی نہیں ہے،لیکن حالات کابھی کچھ پتہ نہیں ہوسکتاہےکہ کبھی کسی زمانےمیں جاناپڑے۔

جواب

واضح رہے کہ جوشخص اپنے شہر یا بستی سے باہر سفر کے ارادے سے نکلے اور   (اپنے شہر کی اختتامی حدود سے مطلوبہ شہر کی ابتدائی حدود تک) مسافتِ سفر  کم از کم  48میل (77٫24 یعنی تقریباً  سواستترکلومیٹر)  ہو تو ایسےشخص پراپنے شہرکی آبادی اور حدود سے نکلنے کے بعد  چا رکعت والی فرض نماز میں قصر کرنا لازم ہوجاتا ہے، اور جس جگہ سفر کا ارادہ ہو  اس شہر یا بستی میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ نہ ہو تو وہاں بھی قصر نماز پڑھنا لازم ہوگا، البتہ اگر وہ اسی جگہ میں پندرہ دن یااس سے زیادہ اقامت کی نیت  کرکے رہے، تو  وہ جگہ اس کے لیے وطنِ  اقامت بن جائے گی،پھر اس جگہ سے اگر اقامت کی نیت ختم نہیں کی، بلکہ وہاں رہائش کے واسطے کمرہ ، سامان  وغیرہ موجود ہو تو اگروہاں سے آبائی وطن چلا  جائے تو  بھی  وطنِ  اقامت باطل نہیں ہوگا۔

صورتِ  مسئولہ میں چوں کہ آپ اورآپ کےوالدین  کوئٹہ میں رہائش پذیر ہے،اوراپنے آبائی علاقے”برشور“سے رہائش کی نیت مستقل طورپرختم کردی ہےتواب” برشور“آپ کاوطن اصلی نہیں ہے،لہذااگرآپ وہاں پندرہ دن سے کم رہنے کی نیت سے جائیں گے توآپ پرقصرکرنالازم ہوگا۔

البحرالرائق میں ہے:

"(قوله ويبطل الوطن الأصلي بمثله لا السفر ووطن الإقامة بمثله والسفر والأصلي) ؛ لأن الشيء يبطل بما هو مثله لا بما هو دونه فلا يصلح مبطلا له وروي أن عثمان رضي الله عنه كان حاجا يصلي بعرفات أربعا فاتبعوه فاعتذر، وقال: إني تأهلت بمكة وقال النبي صلى الله عليه وسلم "من تأهل ببلدة فهو منها" والوطن الأصلي هو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها وهذا الوطن يبطل بمثله لا غير، وهو أن يتوطن في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها فيخرج الأول من أن يكون وطنا أصليا حتى لو دخله مسافرا لا يتم قيدنا بكونه انتقل عن الأول بأهله؛لأنه لو لم ينتقل بهم، ولكنه استحدث أهلا في بلدة أخرى فإن الأول لم يبطل ويتم فيهماوقيد بقوله بمثله؛ لأنه لو باع داره ونقل عياله وخرج يريد أن يتوطن بلدة أخرى ثم بدا له أن لا يتوطن ما قصده أولا ويتوطن بلدة غيرها فمر ببلده الأول فإنه يصلي أربعا؛ لأنه لم يتوطن غيره،وفي المحيط، ولو كان له أهل بالكوفة، وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة قيل البصرة لا تبقى وطنا له؛ لأنها إنما كانت وطنا بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطنا له، وقيل تبقى وطنا له؛ لأنها كانت وطنا له بالأهل والدار جميعا فبزوال أحدهما لا يرتفع الوطن كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ج:2، ص:147، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144603101502

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں