بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جب سب بھائیوں کا الگ مستقل کاروبار ہو تو کوئی بھی دوسرے کی کمائی میں حق دار نہیں ہوگا


سوال

 میرے والد محترم کی کمائی اور ذریعۂ معاش تعویذات اور جھاڑپھونک تھا،والد صاحب کا انتقال ہوا ،والد محترم کے انتقال کے بعد ہربیٹے نے اپنے ذاتی اموال سے اپنااپنا کاروبارشروع کیا اور ان میں سے ایک بیٹا عالم دین تھا،اس نے باپ کی طرح تعویذات کا سلسلہ آگے جاری رکھا ،اور یہ عالم بیٹا دیگر بھائیوں کے کاروبارمیں شریک بھی نہیں ہے اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس عالم دین کی کمائی و کسب میں دیگر بہن ،بھائیوں کا  کوئی حق ہےیانہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کے دیگر بھائیوں کاکاروبار الگ ہے اور عالم بھائی کاذریعۂ معاش الگ ہے تو ایسی صورت میں سائل کے دیگر بہن بھائیوں کاسائل کے عالم بھائی کی کمائی میں کوئی حق وحصہ نہیں ہے۔

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے:

"(سئل) في ابن كبير له عيال وكسب مات أبوه عنه وعن ورثة يدعون أن ما حصله من كسبه مخلف عن أبيهم ويريدون إدخاله في التركة فهل حيث كان له كسب مستقل يختص بما أنشأه من كسب وليس للورثة مقاسمته في ذلك ولا إدخاله في التركة؟(الجواب) : نعم."

(كتاب الدعوٰى ،18/2، ط: دار المعرفة)

وفیہ ایضًا:

"وفي الفتاوى الخيرية سئل في ابن كبير ذي زوجة وعيال له كسب مستقل حصل بسببه أموالا ومات هل هي لوالده خاصة أم تقسم بين ورثته أجاب هي للابن تقسم بين ورثته على فرائض الله تعالى حيث كان له كسب مستقل بنفسه."

(كتاب الدعوٰى، 18/2، ط: دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں