بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جب شفیع کو حقِ شفعہ کا علم نہ ہو اور وہ شفعے کا دعویٰ ترک کرے تو کیا شفعہ کا حق ساقط ہوجائے گا؟


سوال

 احمد نےاپنی زمین کا تبادلہ خالد کی زمین کے ساتھ کیا،اورایک دوسرے کو قبضہ وتصرف بھی دے دیا ، البتہ اس معاملے کے وقت احمد نے اپنے پڑوسی سے نہیں پوچھا تھا ، جب کہ پڑوسی نے اس مبادلۃ الارض بالأرض والے معاملے کو دیکھتے ہوئے بھی حقِ شفعہ کا مطالبہ نہیں کیا تھا، بعد میں شفعہ کا دعویٰ کیا ہے اور کہتا ہے  کہ مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ مبادلۃ الارض بالأرض کی صورت میں بھی شفعہ کا حق ملتا ہے، اب مجھے معلوم ہوا کہ مبادلۃ الأرض بالأرض کی صورت میں بھی شفیع اپنا حق وصول کرسکتا ہے،  اس لیے میں اپنا حق لوں گا، کیا اس صورت میں احمد کے پڑوسی کو حقِ شفعہ ملےگا یا نہیں؟ 

جواب

واضح رہے کہ جس شخص کوحقِ شفعہ حاصل ہوتاہے، اس پرحقِ شفعہ کے ثبوت کےلیے لازم ہے کہ جس مجلس میں اسےزمین یا جائیداد کے فروخت کئے جانے کی خبر پہنچی ہو  اسی  مجلس میں   اپنےلیےحقِ شفعہ کےمحفوظ ہونے  کا اعلان کرے،پھر وہاں سے اٹھ کر فروخت کنندہ یا خریدار(جس کے قبضے میں زمین یا جائیداد ہو)یااس فروخت شدہ زمین کے پاس جاکر گواہوں کی موجودگی میں شفعہ کرنے کا اعلان کرے، اس صورت میں شفیع(شفعہ کرنےوالے)کاحقِ شفعہ برقرار رہے گا، البتہ اگروہ بیع(فروختگی) کی خبر سن کرخاموش رہااورمجلسِ علم میں شفعہ کرنے کا اعلان نہیں کیا تو اس کا حقِ شفعہ ساقط ہوجائےگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب کہ شفیع  کو بیع (زمین کے تبادلہ) کے وقت   حقِ شفعہ کا دعویٰ نہیں کیا تو شفیع کا حق ساقط ہوچکا ہے، اور شفیع کا یہ کہنا کہ" مجھے معلوم نہیں تھا کہ مبادلۃ الاَرض بالاَرض میں بھی شفعہ ہوتا ہے " معتبر نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) يبطلها (تسليمها بعد البيع) علم بالسقوط أو لا (فقط) لا قبله...(قوله علم بالسقوط أو لا) قال في المنح لأنه لا يعذر ‌بالجهل ‌بالأحكام في دار الإسلام اهـوالأوضح أن يذكره فيما إذا سكت لأنه هو الذي يتوهم كون الجهل فيه عذرا، أما عند التسليم منه فلا وجه له ط. قلت: فالمناسب ما في التتارخانية علم بوجوب الشفعة أو لا وعلم من سقط إليه هذا الحق أو لا."

(‌‌كتاب الشفعة، باب ما يبطل الشفعة، ج:6، ص:240، ط:سعيد)

دررالحكام شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"(مادة 1028)(‌يلزم ‌في ‌الشفعة ثلاثة طلبات وهي طلب المواثبة وطلب التقرير والإشهاد وطلب الخصومة والتملك)." 

"(مادة 1029)(ويلزم الشفيع أن يقول كلاما يدل على طلب الشفعة في المجلس الذي سمع فيه عقد البيع في الحال كقوله أنا شفيع المبيع أو أطلبه بالشفعة ويقال لهذا طلب المواثبة)."

(الكتاب التاسع، الفصل الثالث، ج:2، ص:178، ط: دارالجيل)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"الشفعة تجب بالعقد والجوار وتتأكد بالطلب والإشهاد وتتملك بالأخذ ثم الطلب على ثلاثة أنواع طلب مواثبة وطلب تقرير وإشهاد وطلب تمليك (أما طلب المواثبة) فهو أنه إذا علم الشفيع بالبيع ينبغي أن يطلب الشفعة على الفور ساعتئذ وإذا سكت ولم يطلب بطلت شفعته وهذه رواية الأصل المشهور عن أصحابنا وروى هشام عن محمد - رحمه الله تعالى - إن طلب في مجلس العلم فله الشفعة وإلا فلا بمنزلة خيار المخيرة وخيار القبول ۔۔۔ (وأما طلب الإشهاد) فهو أن يشهد على طلب المواثبة حتى يتأكد الوجوب بالطلب على الفور۔۔۔ ثم طلب الإشهاد مقدر بالتمكن من الإشهاد، فمتى تمكن من الإشهاد عند حضرة واحد من هذه الأشياء ولم يطلب الإشهاد بطلت شفعته نفيا للضرر عن المشتري."

(كتاب الشفعة، الباب الثالث قي طلب الشفعة، ج:5، ص:201-202، دارالفكر)

وفيه ايضاً:

"وأما الدلالة فهو أن يوجد من الشفيع ما يدل على رضاه بالعقد، وحكمه للمشتري نحو ما إذا علم بالشراء فترك الطلب على الفور من غير عذر أو قام عن المجلس أو تشاغل عن الطلب بعمل آخر على اختلاف الروايتين ...تسليم الشفعة قبل البيع لا يصح وبعده صحيح علم ‌الشفيع ‌بوجوب ‌الشفعة أو لم يعلم علم من أسقط إليه هذا الحق أو لم يعلم كذا في المحيط."

(كتاب الشفعة، الباب التاسع فيما يبطل به حق الشفعة بعد ثبوته وما لا يبطل، ج:5، ص:182، ط: دار الفکر)

المحیط البرھانی میں ہے:

"والجهل في دار الإسلام ‌ليس ‌بعذر."

(‌‌كتاب النكاح، ‌‌الفصل التاسع عشر: في نكاح الكفار، ج:3، ص:144، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101401

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں