بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جب نقل کے بغیر چارہ نہ ہو تو کیا کیا جائے؟


سوال

میں ایک سرکاری پرائمری استاد کے فرائض سرانجام دے رہا ہوں، ہماری ایک آن لائن ٹریننگ ہورہی ہے،جس میں بہت سارے اساتذہ یوٹیوب وغیرہ سے سوالات کے جوابات دیکھ کر بھی جواب لکھ  رہے ہیں، اور میں نے مکمل ایمانداری سے اپنی طرف سے جوابات لکھنے  کی کوشش کی ہے،  جس کی وجہ سے اب میرا سرٹیفیکیٹ ڈاؤن لوڈ نہیں ہو رہاہے،  مطلب میری ٹریننگ نامکمل ہے، تو کیا اس صورت حال میں نقل کرنے  کی گنجائش ہے؟ اور کیا مجھے جاب ترک کردینی چاہیےیا کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ نقل کے ذریعہ ڈگری لینا اور اس ڈگری سے ملازمت حاصل کرنا شرعاً ناجائز ہے، لیکن اگر کسی نے اس طرح ملازمت حاصل کرلی ہو تو اگر وہ شخص ملازمت کے فرائض درست طریقے سے انجام دے رہا ہو تو اس کے لیے تنخواہ حلال ہوگی اور اگر وہ ملازمت کے فرائض میں کوتاہی کرتا ہو تو  کوتاہی کے بقدر اس کے لیے تنخواہ لینا حلال نہیں  ہوگا،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کو سرکاری نوکری مل چکی ہےاور وہ ملازمت کے فرائض درست طریقے سے انجام دے رہا ہے تو اس کے لیے یہ جاب کرنا صحیح ہے، اور اگر یہ ملازمت اس ٹریننگ پر موقوف ہے جس کو بغیر نقل کے سائل مکمل نہیں کرسکتا تو سائل کو مذکورہ جاب کے علاوہ دوسری جاب اختیار کرنی چاہیے؛ تاکہ جھوٹ اور دھوکہ دہی سے بچ جائے۔

وفيه ايضاً:

"وَمَنْ يَّـتَّـقِ اللهَ يَجْعَلْ لَّه مَخْرَجاً وَّ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَايَحْتَسِب وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا ."{الطلاق:2-3}.

"ترجمہ:اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالی اس کے لیے نجات کی شکل نکال دیتا ہے، اور اس کو ایسی جگہ سے رزق پھونچاتا ہے جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوتا، اور جو شخص اللہ پر توکل کرےگا تو اللہ تعالی اس کے لیے کافی ہے، اللہ تعالی اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے، اللہ تعالی نے ہر شے کا انداز مقرر کر رکھا ہے۔( بیان القرآن)"

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن غشنا فليس منا."

( كتاب الايمان، باب قول النبي صلي الله عليه و سلم: من غشنا فليس منا،  ج: 1، ص: 99، ط: دار  احياء التراث العربي، بيروت)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها."

(كتاب الاجارة، الباب الثاني: متي يجب الاجر، ج: 4، ص: 413، ط: المكتبة الرشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411100333

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں