بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جب امام مسجد ظہر کی پہلی سنتوں کو بعد میں پڑھتا ہو تو جماعت کا کیا حکم ہے؟


سوال

 اگر ایک امام مسجد ظہر کی پہلی سنت کو روزانہ فرض نماز کے بعد پڑھتا ہو  تو آیا جماعت ہوجائے گی یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ ظہر سے پہلے کی چار رکعت سنتیں امام اور مقتدی دونوں کے لیے سنتِ مؤکدہ ہیں،   اگر کبھی جماعت کا وقت ہوجائے اور امام نے سنتیں نہ پڑھی ہوں تو مقتدیوں کو چاہیے کہ امام کو سنتوں کی ادائیگی کاموقع دے دیں، لیکن اگر امام  سنتیں پڑھے بغیربھی فرض نماز پڑھادے  تو نماز کسی قسم کی کراہت کے بغیر  ادا ہوجائے گی ، لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر امام ظہر کی سنتیں پہلے نہ پڑھتا ہو تب بھی  اس کی اقتداء میں نماز ہوجائے گی ، لیکن ظہر کی چار سنتیں فرض کے بعد پڑھنے کی مستقل عادت بنالینا درست نہیں ہے، سنتیں اپنے وقت پر پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

البناية شرح الهداية میں ہے:

"(بخلاف ‌سنة ‌الظهر حيث يتركها في الحالتين) أي في حال خشية الفوات، وحال عدمها م: (لأنه يمكنه أداؤها في الوقت) أي لأن الشأن يمكنه أداء ‌سنة ‌الظهر في وقت الظهر م: (بعد الفرض) أي بعد أداء فرض الظهر م: (هو الصحيح) أي أداء بعض الظهر بعد الفرض في الوقت هو الصحيح."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب إدراك الفريضة، حكم من انتهى إلى الإمام في صلاة الفجر وهو لم يصل ركعتي الفجر، ج:2، ص:570، ط:دار الكتب العلمية)

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:

"وأما ‌سنة ‌الظهر القبلية إذا صليت بعد فإطلاق القضاء عليها مجاز على كل حال لأنها مفعولة في وقتها وإن قيل ان وقتها مخصوص بما قبل الفرض فتكون قضاء بعده."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب قضاء الفوائت، ص:440، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(بخلاف ‌سنة ‌الظهر) وكذا الجمعة (فإنه) إن خاف فوت ركعة (يتركها) ويقتدي (ثم يأتي بها) على أنها سنة (في وقته) أي الظهر."

‌‌(كتاب الصلاة، ‌‌باب إدراك الفريضة، ج:2، ص:58، ط:سعيد)

وفيه أيضاً:

"(وسن) مؤكدا(أربع قبل الظهر)...(وركعتان قبل الصبح وبعد الظهر والمغرب والعشاء) شرعت البعدية لجبر النقصان، والقبلية لقطع طمع الشيطان...(وست بعد المغرب) ليكتب من الأوابين."

(كتاب الصلاة، ‌‌‌‌باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:12-13، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503100956

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں