بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جب گھر کا خرچ مشترک ہو تو گھر کے افراد زکوٰۃ کیسے نکالیں؟ / زکوٰۃ کے متفرق مسائل


سوال

پانچ بھائی ہیں، ایک بھائی کی سرکاری نوکری ہے، دوسرا بھینسوں کی دیکھ بھال کرتا ہے، باقی تین بھائی دکان چلاتے ہیں، ان کی جنرل سٹور کی دکان ہے ۔ گھرچلانے کاخرچہ سب بھائیوں میں مشترک ہے،  والد صاحب فوت ہوچکے ہیں ،گھر کا سربراہ بڑا بھائی ہے۔  اب پوچھنا یہ ہے کہ:

(1) یہ حضرات زکات کیسے ادا کریں؟ بھینسوں کا دودھ دھو کر وہ بھائی دکان میں بھائیوں کو بھیجتا ہے پھر وہ بیچتے ہیں۔

(2) دکان میں جو سامان رکھا ہے اس پر زکات کی ادائیگی فرض ہے یا نہیں؟ نیز دکان میں رکھی گئی ہر وہ چیز جس پر زکات فرض ہو آگاہ فرمائیے۔ واضح رہے کہ دکان ان کی ذاتی ہے، نیز دکان میں رکھے ہوئے فریج جس میں بوتلیں اور دودھ وغیرہ رکھا ہوتا ہے، کیا فریج کی زکات نکالنی ہوگی؟ دکان میں رکھی ہوئی کون سی کون سی چیز پر زکات کی ادائیگی فرض ہے؟

(3) سرکاری نوکری کرنے والے پر ادائیگی زکات ضروری ہے یا نہیں، اور زکات نکالنے کا طریقہ کار بھی بتائیں آسان انداز میں ۔

(4) بھینسیں  جن کا دودھ دھو کر فروخت کیا جائے یا ویسے فروخت کے لیے  پالی جائیں، ان کی زکات کا کیا طریقہ کار ہے؟

(5) بھائیوں کےگھر کا خرچ مشترک ہو تو زکات کیسے نکالی جائے؟

(6) گھریلو سامان میں کپڑے بستر برتن وغیرہ پر زکات ہے یا نہیں،  بعض چیزیں مثلاً بستر برتن وغیرہ سالوں استعمال نہیں ہوتے، بعض چھ ماہ بعد کبھی ایک آدھ دن کے لیے زیر استعمال لائی جاتی ہیں، بعض سال کے بعد، بعض چیزیں سال بعد بھی استعمال نہیں ہوتی ہیں، یعنی جب ضرورت پڑتی ہے تب استعمال ہوتی ہیں، مثلاً کوئی شادی ہوگئی ہو یا فوتگی ہوگئی ہو یا کوئی مہمان آگیا ہو، تو  ان پر زکات کا کیا ضابطہ ہے؟

(7) گھر کی اے سی فریج موٹر سائیکل گاڑی وغیرہ  کے متعلق بھی زکات کا حکم واضح کیجئے اور گھر کی جس جس چیز پر زکات فرض ہوتی ہے وہ بھی وضاحت کے ساتھ بتا دیجئے۔

(8) نیز زکات نکالنے کا کوئی آسان طریقہ بتائیں،  کیا زکات فارم آپ حضرات کے پاس ہے جس کی مدد سے معلوم ہو سکے کہ آدمی کے پاس چیزوں میں سے کس کس چیز پر زکات کی ادائیگی فرض ہے اور کون کون سے اخراجات منہا کئے جائیں گے،  اگر ہے تو برائے مہربانی بھیج دیجئے،  اگر نہیں تو ان اشیا کی نشاندہی کی جائے تاکہ زکات کی ادائیگی کرنا آسان ہو!

جواب

(1)واضح رہے کہ زکاۃ کے واجب ہونے کے متعلق شریعت نے ہرآدمی کی اپنی ملکیت کا اعتبار کیاہے، اور ہر صاحبِ نصاب پر اپنے نصاب میں سے خود یااپنی اجازت سے کسی اور کے ذریعہ زکاۃ نکالنا ضروری ہے؛ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں گھر کے سربراہ (بڑے بھائی)  کے پاس جو بھی آمدن جمع ہوجائے، اور اس پر سال گزر جائے، تو اس میں سے جوحصہ بڑے بھائی کا بنتاہو اور وہ نصاب کے بقدر ہو، تو اس کی زکاۃ نکالنا بڑے بھائی کے ذمہ ہے ، اور جو حصہ دیگر بھائیوں کا بنتاہو اور  وہ نصاب کے بقدر ہو، تو اس کی زکاۃ خود اُن پر نکالنا ضروری ہے، البتہ اگر بڑا بھائی اُن کی اجازت سے اپنے حصے کی زکاۃ کے ساتھ اُن کے حصے کی زکاۃ بھی نکال دے تو جائز ہوگا۔

(2)دکان میں جو سامانِ تجارت (یعنی فروخت کرنے کا سامان) رکھاہے،مثلاً: آٹا، چینی، دال، چاول، وغیرہ، اگروہ نصاب کی مقدار کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے، یا دیگر مالِ زکاۃ کے ساتھ مل کر نصاب کے بقدر ہو، تو اس کی کل مالیت معلوم کرکے اس کےڈھائی فیصد سے زکاۃ ادا کی جائےگی، البتہ جو سامان دكان میں فروخت کرنے کی غرض سے نہیں رکھاہوا، مثلاً: سامان رکھنے کے لیے فریج، یاکوئی الماری، ٹیبل وغیرہ، یا مال تجارت نہیں بلکہ آلۂ تجارت ہے، مثلاً دودھ کی پیمائش کے ڈونگے وغیرہ، تو ان پر زکاۃ  نہیں آئےگی۔

(3) سرکاری نوکری کرنے والے بھائی کے پاس اگر اپنی ذاتی ملکیت میں نصاب کے بقدر مالِ  زکاۃ یا اس کے بقدر رقم جمع ہوجائے، اور اس پر سال گزر جائے، تو اس میں سے ڈھائی فیصد بطورِ زکاۃ دے گا۔ نیز زکوٰۃ نکالنے کے طریقے کی تفصیل جواب کی شق نمبر (8) میں ملاحظہ فرمائیں۔

(4) جو بھینسیں فروخت کے لیےہوں، اس پر دیگر اموالِ تجارت کی طرح  زکاۃ آئےگی، اور جو بھینسیں فروخت کی غرض سے نہ  خریدی ہوں،  بلکہ  دودھ دھوکر بیچنے کی غرض سے رکھی  ہوں، تو ان بھینسوں پر زکوۃ نہیں البتہ کے دودھ کی آمدن اگر جمع رہے تو وہ خود نصاب کے برابر ہو یا دوسری چیزوں کے ساتھ نصاب کے برابر ہو تو  اس  پر   بھی دیگر  نقدی رقم کی طرح زکاۃ آئےگی۔

(5) اس کاجواب، شق نمبر(1) میں عرض کیا جاچکا ہے۔

(6) و(7) گھریلو سامان،کپڑے،بستر،فریج، اے سی، وغیرہ، اور اسی طرح (سونے اور چاندی کے علاوہ) ذاتی استعمال کے لیے خریدے ہوئے سامان،گاڑی، گھڑی وغیرہ پر کوئی زکاۃ  نہیں ہے، اگرچہ وہ سالہا سال سے پڑے ہوں، اور بہت ہی کم وہ استعمال میں لائے جاتے ہوں۔

(8)زکوٰۃ اُس شخص پر واجب ہوتی ہے جس کی ملکیت میں ضرورتِ اصلیہ سے زائد،    نصاب کے بقدر  ایسا مال موجود  ہو   کہ جس  پر قرض نہ ہو اور اُس پر    قمری مہینوں  کے اعتبار سے ایک سال گزر چکا ہو۔ اور زکوٰۃ  کے  نصاب کی تفصیل  یہ ہے کہ اگر   کسی کے پاس صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا، اور صرف چاندی ہو تو  ساڑھے باون تولہ چاندی، اور اگر  دونوں میں سے کسی ایک کی مالیت کے برابر نقدی  یا سامانِ تجارت ہو ،  یا یہ سب ملا کر یا ان میں سے بعض ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی)  کے برابر بنتی ہو، تو ایسے  شخص پر  سال پورا ہونے پر قابلِ زکوٰۃ  اموال  کی ڈھائی فیصد (یعنی چالیسواں حصہ)  زکوٰۃ  ادا کرنا لازم ہے۔ اور اس کو معلوم کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ کل مالیت کو 40 سے تقسیم کردیا جائے، حاصلِ جواب زکاۃ کی واجب مقدار ہوگی،یعنی مثال کے طور پر کسی کے پاس 2 لاکھ روپے ہوں تو اُس پر 5000  روپے زکوٰۃ بنے گی جو کہ  دو لاکھ کا چالیسواں حصہ، یعنی ڈھائی فیصد ہے۔ 

نیز  واضح ہوکہ  زکوٰۃ  کا مدارصرف ساڑھے سات تولہ سونے پراُس وقت ہے کہ جب سونے کے ساتھ کسی اور جنس میں سے کچھ پاس نہ ہو، لیکن اگر سونے کے ساتھ ساتھ کچھ رقم ، مال تجارت ، یا کچھ چاندی  بھی ہو تو  اس صورت میں اگر  ان سب کی  مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہوجائے تو زکوۃ واجب ہوگی۔

نوٹ: ہمارے پاس کوئی فارم فی الوقت اس سلسلے میں نہیں۔ 

العقود الدریہ میں ہے:

"(سئل) في ‌إخوة خمسة سعيهم وكسبهم واحد وعائلتهم واحدة حصلوا بسعيهم وكسبهم أموالا فهل تكون الأموال المذكورة مشتركة بينهم أخماسا؟

(الجواب) : ما حصله الإخوة الخمسة بسعيهم وكسبهم يكون بينهم أخماسا."

(كتاب الشركة، ٩٤/١، ط:دار المعرفة)

درر الحکام فی شرح مجلۃ لاحکام میں ہے:

"لو كان ‌إخوة أربعة في عائلة واحدة وسعوا في تكثير وتنمية الأموال الموروثة عن أبيهم فتقسم الأقسام بينهم بالسوية ولا ينظر إلى اختلاف عملهم أو اختلاف رأيهم."

(الكتاب العاشر الشركات، ٤٢١/٣، ط:دار الجيل)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لو اجتمع ‌إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي اهـ وقدمنا أن هذا ليس شركة مفاوضة ما لم يصرحا بلفظها أو بمقتضياتها مع استيفاء شروطها."

(كتاب الشركة، ٣٢٥/٤، ط:سعيد)

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

"(قوله: وليس لكل واحد من الشريكين أن يؤدي ‌زكاة مال الآخر إلا بإذنه) ؛ لأن ذلك ليس من جنس التجارة فلا يملك التصرف فيها."

(كتاب الشركة، ٢٩١/١، ط:المطبعة الخيرية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"الزكاة عبارة عن النماء وذلك من المال النامي على التفسير الذي ذكرناه وهو أن يكون معدا للاستنماء وذلك بالإعداد للإسامة في المواشي والتجارة في أموال التجارة، إلا أن الإعداد للتجارة في الأثمان المطلقة من الذهب والفضة ثابت بأصل الخلقة؛ لأنها لا تصلح للانتفاع بأعيانها في دفع الحوائج الأصلية فلا حاجة إلى الإعداد من العبد للتجارة بالنية، إذ النية للتعيين وهي متعينة للتجارة بأصل الخلقة فلا حاجة إلى التعيين بالنية فتجب الزكاة فيها، نوى التجارة أو لم ينو أصلا أو نوى النفقة.

وأما فيما سوى الأثمان من العروض فإنما يكون الإعداد فيها للتجارة بالنية؛ لأنها كما تصلح للتجارة تصلح للانتفاع بأعيانها بل المقصود الأصلي منها ذلك فلا بد من التعيين للتجارة وذلك بالنية. وكذا في المواشي لا بد فيها من نية الإسامة."

(كتاب الزكاة، فصل شرائط فرضية الزكاة، ١١/٢، ط:مطبعة شركة المطبوعات العلمية بمصر)

تبیین الحقائق میں ہے:

"تضم قيمة العروض إلى الذهب والفضة ويضم الذهب إلى الفضة بالقيمة فيكمل به النصاب لأن الكل جنس واحد لأنها للتجارة وإن اختلفت جهة الأعداد ووجوب الزكاة باعتبارها."

(كتاب الزكاة، باب زكاة المال، ٢٨١/١، ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

البحرالرائق میں ہے:

"وضابطه أن ما يبقى أثره في العين فهو مال التجارة، وما لا يبقى أثره فيها فليس منه كصابون الغسال."

(كتاب الزكاة، ٢٢٦/٢، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں