بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جب بھی میرا نکاح ہو اور جب بھی میں نکاح کروں دونوں میں فرق


سوال

1)میں نے طلاق کی قسم کھا لی تھی کہ" جب بھی میرا نکاح ہو تو طلاق واقع ہو جائے،یہ نہیں کہا تھا کہ جب بھی میں نکاح کروں تو طلاق واقع ہو جائے، کیا ان دو صورتوں میں کوئی فرق ہے۔

2)کیا ایسی صورت میں میرا نکاح کوئی  فضولی بن کر کراسکتا ہے، اگر کرا سکتا ہے تو کیا یہ ضروری ہے کہ جہاں میرا نکاح ہونا ہے اس لڑکی کا بھی مجھے پتہ نہ ہو اور جس دن نکاح ہونا ہے  اس دن کا بھی پتہ نہ ہو،کیا اتنا کافی ہے نکاح فضولی میں کہ بس مجھے اس بندے کا نہ پتہ ہو جس نے نکاح پڑھانا ہے ،باقی مجھے یہ بھی پتا ہو کہ کہاں نکاح ہونا اور کس لڑکی سے ہونا ہے اور میں ساتھ بھی چلا جاؤں ؟

جواب

1،2)صورتِ مسئولہ میں دونوں جملوں میں فرق ہے ،وہ یہ ہے کہ "جب بھی میں نکاح کروں "میں نکاح کی اضافت اپنی طرف ہے ،اس صورت میں فقہاء نےحنث سے بچنے کے لیے  یہ حیلہ بتایا ہے کہ کوئی فضولی بن کر مذکورہ شخص کا نکاح کرادے ،اور مذکورہ شخص اس نکاح کو  بالفعل قبول کر لے ،جب کہ دوسرے جملہ "" جب بھی میرا نکاح ہو"میں نکاح کی اضافت اپنی طرف نہیں ہے،بلکہ مطلقا نکاح کی قسم کھائی ہے،    تو اس صورت میں مذکورہ حیلہ  بھی نہیں ہو سکتا ہے ،پس جس عورت سے ،جس طرح بھی نکاح کرے گا طلاق واقع ہو جائے گی ،ہاں سخت مجبوری میں جائز ہے کہ مذکورہ شخص حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے مسلک سے استفادہ کرے ،اس کی صورت یہ ہے کہ مذکورہ شخص کسی عورت سے نکاح کرے ،اور وہ عورت وطی اور خلوت سے پہلے طلاق کا دعوی کردے،پھر دونوں میاں بیوی کسی مستند شافعی عالم کو اپنا فیصل مقرر کرنے پر راضی ہوجائیں ،اور وہ فیصل اپنے مذہب کے مطابق یہ فیصلہ کردے کہ یہ تعلیق محل میں نہ ہونے کی وجہ سے غیر معتبر ہے،اور عورت مطلقہ نہیں ہوئی ہے اور میاں بیوی اس کے موافق عمل کر لیں ۔

لہذاسائل نے چوں کہ"جب بھی میرا نکاح ہو "کے الفاظ استعمال کیے ہیں  ،لہذا  سائل کا نکاح اگر کوئی فضولی کرائے اور سائل اس کو بالفعل قبول بھی کر لے تو بھی سائل حانث ہو جائے گا اور منکوحہ پر طلاق واقع ہو  جائے گی ،البتہ اگر سائل کے لیے  نکاح  کے بغیر عفت کی زندگی گزارنا مشکل ہے تو سائل کو مذکورہ طریقہ سے مذہب شافعی سے استفادہ کی گنجائش ہے ۔

الدر المختار مع الرد  میں ہے:

"وفي الدر:لا يدخل نكاح الفضولي ما لم يقل إن دخلت امرأة في نكاحي.

وفی الشامی : (قوله لا يدخل نكاح الفضولي إلخ) في البحر عن القنية: إن تزوجت عليك امرأة فأمرها بيدك فدخلت امرأة في نكاحه بنكاح الفضولي وأجاز بالفعل ليس لها أن تطلقها، ولو قال إن دخلت امرأة في نكاحي فلها ذلك؛ وكذا في التوكيل بذلك اهـ أي لأنه بعقد الفضولي مع عدم الإجازة بالقول لم يصدق أنه تزوجها بل صدق أنها دخلت في نكاحه، ومثل دخلت قوله تحل لي لكن سيذكر في آخر كتاب الأيمان عدم الحنث مطلقا، حيث قال: كل امرأة تدخل في نكاحي أو تصير حلالا لي فكذا فأجاز نكاح فضولي بالفعل لا يحنث، ومثله إن تزوجت امرأة بنفسي أو بوكيلي أو بفضولي أو دخلت في نكاحي بوجه ما تكن زوجته طالقا لأن قوله أو بفضولي عطف على قوله بنفسي وعامله تزوجت وهو خاص بالقول، وإنما ينسد باب الفضولي لو زاد أو أجزت نكاح فضولي ولو بالفعل، ولا مخلص له إلا إذا كان المعلق طلاق المتزوجة فيرفع الأمر إلى شافعي ليفسخ اليمين المضافة اهـ

وحاصله أنه إما أن يعلق طلاق زوجته أو طلاق التي يتزوجها، ففي الثانية يرفع الأمر إلى شافعي، وعلم أن في المسألة قولين، ووجه عدم الحنث في: أو دخلت امرأة في نكاحي أن دخولها لا يكون إلا بالتزويج فكأنه قال إن تزوجتها، وبتزويج الفضولي لا يصير متزوجا، بخلاف: كل عبد دخل في ملكي فإنه يحنث بعقد الفضولي، فإن ملك اليمين لا يختص بالشراء بل له أسباب سواه، وقد ذكر المصنف القولين في فتاواه ورجح القول بعدم الحنث وسيأتي إن شاء الله تعالى تمام الكلام على ذلك في الأيمان (قوله لم يقع) لأنه تمليك منهما وهو في معنى التعليق على فعلهما فلم يوجد المعلق عليه بفعل أحدهما، والله تعالى أعلم."

(کتاب الطلاق ،باب تفویض الطلاق ،ج:3،ص:330،ط:سعید)

وفیه ایضاً:

"وفي الدر : (كل امرأة تدخل في نكاحي) أو تصير حلالا لي (فكذا فأجاز ‌نكاح ‌فضولي بالفعل لا يحنث) بخلاف كل عبد يدخل في ملكي فهو حر فأجازه بالفعل حنث اتفاقا لكثرة أسباب الملك عمادية. وفيها: حلف لا يطلق فأجاز طلاق فضولي قولا أو فعلا فهو كالنكاح غير أن سوق المهر ليس بإجازة لوجوبه قبل الطلاق. قال لامرأة الغير: إن دخلت دار فلان فأنت طالق فأجاز الزوج فدخلت طلقت (ومثله) في عدم حنثه بإجازته فعلا ما يكتبه الموثقون في التعاليق من نحو قوله (إن تزوجت امرأة بنفسي أو بوكيلي أو بفضولي) أو دخلت في نكاحي بوجه ما تكن زوجته طالقا لأن قوله أو بفضولي إلى آخره عطف على قوله بنفسي وعامله تزوجت وهو خاص بالقول وإنما ينسد باب الفضولي لو زاد أو أجزت نكاح فضولي ولو بالفعل فلا مخلص له إلا إذا كان المعلق طلاق المزوجة فيرفع الأمر إلى شافعي ليفسخ اليمين المضافة.

وفي الشامي : مطلب قال كل امرأة تدخل في نكاحي فكذا(قوله لا يحنث) هذا أحد قولين قاله الفقيه أبو جعفر ونجم الدين النسفي والثاني أنه يحنث وبه قال شمس الأئمة والإمام البزدوي والسيد أبو القاسم وعليه مشى الشارح قبيل فصل المشيئة، لكن رجح المصنف في فتاواه الأول ووجهه أن دخولها في نكاحه لا يكون إلا بالتزويج. فيكون ذكر الحكم ذكر سببه المختص به فيصير في التقدير كأنه قال إن تزوجتها وبتزويج الفضولي، لا يصير متزوجا، كما في فتاوى العلامة قاسم قلت: قد يقال إن له سببين: التزوج بنفسه والتزويج بلفظ الفضولي، والثاني غير الأول بدليل أنه لا يحنث به في حلفه لا يتزوج تأمل."

(کتاب الایمان ،ج:3،ص:847،ط:رشیدیہ)

کفایت المفتی میں ہے:

"دنیا کے پردہ پر جتنی عورتیں ہیں‘ ان سے میرا نکاح ہو تو ان سبہوں پر طلاق طلاق طلاق ‘ تو کیا حکم ہے ؟

(سوال )  ایک شخص  حنفی المذہب عاقل و بالغ جس کا نکاح ابھی تک کسی عورت  سے نہیں ہوا ہے، اس نے کہا کہ پرده دنیا پر جتنی عورتیں ہیں ان سے میرا نکاح ہو تو ان سبھوں پر طلاق،طلاق، طلاق، اب اس کا نکاح ہوسکتا ہے یا نہیں؟ دیگر اماموں کے مذاہب میں کوئی گنجائش ہے یا نہیں؟

 (جواب)  حنفیہ کے نزدیک یہ تعلیق صحیح ہوجاتی ہے اور جس عورت سے اس کے بعد اس شخص کا نکاح ہوگا اس پر طلاق ہوجائے گی ،ہاں  سخت مجبوری اور اضطرار کی حالت میں یہ جائز ہوجاتا ہے کہ صاحب واقعہ حضرت امام شافعیؒ کے مذہب سے استفادہ کرے ،اور  اس کی صورت یہ ہے کہ کسی عورت سے نکاح کرے اور قبل وطی و خلوت  وہ عورت طلاق پڑ جانے کا  دعویٰ کردے اور زوجین کسی  شافعی عالم کو اپنا حکم (ثالث ) مقرر کرکے اس کے فیصلہ پر راضی ہو جائیں، وہ ثالث اپنے مذہب کے موافق فیصلہ کردے کہ یہ تعلیق غیر معتبر ہے، اور عورت مطلقہ نہیں ہوئی اور زوجین اس حکم کے موافق عمل کرلیں۔ واللہ اعلم  ۔"محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ‘

(کتاب الطلاق ،ج:6،ص:330،ط:دار الاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"اگر میں اس سے نکاح کروں " یا"میرا اس سے نکاح ہو جائے تو اس کو طلاق ِ مغلظہ"کا حکم

سوال:مضطر اجنبی نے مسمی غزالہ غیر منکوحہ اجنبیہ کے متعلق کہا کہ  "اگر میں اس سے نکاح کروں " یا"میرا اس سے نکاح ہو جائے تو اس کو طلاق ِ مغلظہ ہے "،مضطر کو یاد نہیں کہ اس نے ان دونوں جملوں میں سے کون سا جملہ کہا ہے ،دریافت طلب امر یہ ہے کہ کون سے قول کو ترجیح دی جائے گی اور کوئی شکل غزالہ سے نکاح کی ہو سکتی ہے یا نہیں ؟شرط یہ ہے کہ غزالہ کی شادی کسی غیر سے نہ ہو ۔

الجوب حامداً و مصلیا ً:جب آدمی ایسی قسم کھاتا ہے تو اس کا مقصد اس عورت سے انتہائی بعد اختیار کرنا ہوتا ہے ،جس کا تقاضا یہ ہے کہ کسی طرح بھی وہ عورت اس کے نکاح میں نہ آسکے اور اس سے پوری دوری رہے ،مگر جملہ نمبر :1 بولنے کی صورت میں نکاح کرنے کی نسبت اپنی طرف کی گئی ہو تو فقہاء نکاح فضولی کی شکل میں وقوع طلاق کا حکم نہیں دیتے جب کہ حالف نے اجازت بالفعل دی ہو ،اور یہ در حقیقت ایک مخرج اور حیلہ ہے ،لیکن جب وہ بالفعل نکاح  کی اضافت اپنی طرف نہ کرے بلکہ یہ کہہ دے کہ "میرا اس سے نکاح ہو "تو اس صورت میں باب الحیلہ بھی مسدود ہو جاتا ہے ۔

چوں کہ حالف کو شک و تردد ہے کہ کون سا جملہ کہا ہے ،اب اگر اس عورت سے اس کا نکاح ہو ،خواہ فضولی ہی کی شکل میں ہو ،اور فرض کیجئے کہ اس نے جملہ نمبر:2 بولا ہو تو حلال ہونے کی کوئی صورت نہیں ،ہمیشہ حرام میں مبتلا رہے گا ،اگر اس سے نکاح نہ ہو تو ابتلاء معصیت سے حتماً محفوظ رہے گا ،اندریں حالات وہ خود ہی کوئی ایسا راستہ اختیار نہ کرے ،اس کو چاہیے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کی نقل فرمودہ حدیث"دع ما يريبك الي ما لا يريبك "الحديث کے تحت تنزہ کی راہ پر چلے ،یہ سخت نادانی ہے کہ ایجاب و قبول سے جو حلال ہو جانے والی تھی اس کو پیشگی ہی ناقدری کر کے آئندہ کے لیے اپنے اوپر حرام کر لیا جائے ۔فقط واللہ سبحانہ تعالی اعلم۔"

(کتاب الطلاق ،باب تعلیق الطلاق ،ج:13،ص:83،ط:فاروقیہ)

 فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144307100411

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں