بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹا گواہی دے کے اس کی قادیانی ماں نے اسلام قبول کر لیا تھا تو کیا حکم ہے؟


سوال

ایک مسلمان عورت نے قادیانیت اختیار کرلی، اور یہ خبر اس کے تمام رشتہ داروں اور دیگر لوگوں میں اچھی طرح پھیل گئی،اب جب چند سال کے بعد اس عورت کا انتقال ہوا تو صرف اس کا ایک بیٹا گواہی دیتا ہے کہ "میری ماں نے پھر سے اسلام قبول کرلیا تھا"،  جب کہ باقی تمام رشتہ داروں کو اس کی خبر بھی نہیں ملی ،اب کیا اس کے ساتھ مسلمان میت جیسا سلوک کیا جاۓ ؟یا قادیانی میت جیسا؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ عورت کے متعلق اگر اس کا ایک بیٹا اس کے مسلمان ہونے کی گواہی دیتا ہے تو اس کے ساتھ  تجہیز وتکفین کے معاملے میں مسلمان میت والا سلوک( نمازِ جنازہ پڑھنا کفن ،دفن  وغیرہ) کیا جائے گا۔

المحیط البرہانی میں ہے:

"‌يصلي ‌على ‌الميت بإخبار الابن المسلم أنه أسلم لأنه أخبر بخبر ديني وهو وجوب الصلاة عليه، وخبر المسلم الواحد في أمور الدين مقبول، فيصلي عليه وليس من ضرورة الصلاة عليه ثبوت استحقاق الميراث للابن المسلم، لأنه ينفصل أمر الصلاة عن الميراث في الجملة فلم يكن من ضرورة استحقاق الميراث للابن المسلم."

(كتاب الشهادات، ‌‌الفصل الحادي عشر: في شهادة أهل الكفر والشهادة عليهم، ج:8، ص:412، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"ولو قال ‌الابن ‌المسلم أسلم أبي قبل موته وأنا وارثه، وقال النصراني أبي لم يسلم فالقول للنصراني في الميراث ويصلى عليه بقول ابنه المسلم."

(كتاب الشهادات، الباب العاشر في شهادة أهل الكفر، ج:3، ص: 518، ط: دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508102340

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں