ہم میاں بیوی کی لڑائی ہو رہی تھی گھریلو مسئلہ پر، میں نے شوہر سے کہا ”میری جان چھوڑ دو“ (میرا مطلب اس بات کو ختم کرنے کا تھا جیسے انسان تنگ آ کر کہے کہ جان چھوڑ دو ) میرے شوہر نے بھی جواب میں کہا”چھوڑ دی ہے جان“ بعد میں ان سے پوچھا میں نے کہ آپ کو کیا لگا میں نے ایسا کیوں کہا تو انہوں نے کہا کہ مجھے یاد بھی نہیں یہ بات، تو پھر میں نے اصرار کیا اور یاد کروانے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ مجھے لگا کہ تم کہہ رہی ہو کہ مجھ سے بات نہ کرنا تو میں نے بھی کہا کہ نہیں بات کرتا، میں نے کچھ دیر بعد پھر سے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو کہہ دیتے ہیں، تم کیا بچو ں والی بات کر رہی ہو ۔ میں پوچھنا چاہ رہی ہوں کہ کیا صرف جان چھوڑ دی کہنے سے طلاق ہوتی ہے۔ اور اگر ہوتی ہے اور نیت دیکھی جاتی ہے تو شوہر کو تو یہی لگتا ہے کے اس طرح کے الفاظ میاں بیوی بول ہی دیتے ہیں ۔ تو کیا طلاق ہو گئی ؟ اور جب شوہر کو پتا ہی نہ ہو کہ اس طرح طلاق ہوتی ہے تو کیا اس کی نیت دیکھی جائے گی؟
واضح رہے کہ عرف میں جان چھوڑ نے کا لفظ کسی معاملہ کو ختم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، یہ لفظ طلاق کے لیے رائج نہیں ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جھگڑے کے دوران آپ کے ”میری جان چھوڑ دو“ کہنے کے جواب میں شوہر کے الفاظ ”چھوڑ دی ہے جان“ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
الدر المختار میں ہے:
"(هو)... (رفع قيد النكاح... (بلفظ مخصوص) هو ما اشتمل على الطلاق".
وفي الرد:
"(قوله هو ما اشتمل على الطلاق) أي على مادة ط ل ق صريحا، مثل أنت طالق، أو كناية كمطلقة بالتخفيف وكأنت ط ل ق وغيرهما كقول القاضي فرقت بينهما عند إباء الزوج الإسلام والعنة واللعان وسائر الكنايات المفيدة للرجعة والبينونة ولفظ الخلع فتح، لكن قوله وغيرهما أي غير الصريح والكناية يفيد أن قول القاضي فرقت، والكنايات ولفظ الخلع مما اشتمل على مادة ط ل ق وليس كذلك، فالمناسب عطفه على ما اشتمل والضمير عائد على ما وثناه نظرا للمعنى لأنه واقع على الصريح والكناية".
(كتاب الطلاق، 3/ 226، ط: سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
"(وأما) الكناية فنوعان: نوع هو كناية بنفسه وضعا، ونوع هو ملحق بها شرعا في حق النية، أما النوع الأول فهو كل لفظ يستعمل في الطلاق ويستعمل في غيره".
(كتاب الطلاق، فصل:وأما الكناية3/ 105، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101885
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن